نئی دہلی:آزادی رائے کے خلاف مودی کا اہم ہتھیار سمجھے والے برطانوی دور کے غداری کے قانون کو بھارتی سپریم کورٹ نے معطل کر دیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق حکومت کی جانب سے نظرثانی تک اس قانون پر عمل درآمد بھی معطل رہے گا۔
متنازع قانون کے بارے میں کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس کواکثر بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کی حکومت آزادیِ اظہار اوراختلاف رائے کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
مودی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کو، جسے کبھی برطانیہ نے مہاتما گاندھی کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا تھا، مودی کی حکومت نے بہت سے صحافیوں، کارکنوں اور طلبہ کے خلاف غلط استعمال کیا ہے۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 124A پولیس کو ایسے لوگوں کو گرفتار کرنے کے وسیع اختیارات دیتی ہے، جو حکومت مخلاف تقاریر کرتے ہیں، یا ان کے خلاف نفرت پھیلانے کا سبب بنتے ہیں، اس قانون کے تحت مجرم کو عمر قید بھی سنائی جا سکتی ہے۔
اس قانون کا طویل عرصے سے اقتدار میں رہنے والی تمام ہندوستانی سیاسی جماعتیں غلط استعمال کرتی رہی ہیں لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اقلیتوں اور نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو نشانہ بنانے سمیت اس میں اپنا دائرہ کار وسیع کر دیا ہے۔
متنازع قانون کے خلاف درخواست کی سماعت کرنے والے چیف جسٹس این وی رمنا نے کہا کہ دفعہ 124 اے کی سختیاں موجودہ سماجی ماحول کے مطابق نہیں اور اس کا نفاذ اور مقصد ایک ایسے وقت کے لیے تھا جب یہ ملک نوآبادیاتی حکومت کے تحت تھا۔
انہوں نے حکومت کو حکم جاری کیا کہ وہ غداری کے الزام میں کوئی نئے مقدمات درج نہ کرے اور اس قانون کے تحت درج مقدمات کی جاری تحقیقات کو روک دے۔جبکہ سپریم کورٹ نے غداری کے الزام میں جیل میں قید لوگوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی ضمانتوں کے لیے مقامی عدالتوں سے رجوع کریں۔
بھارت میں جرائم کے سرکاری اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ 2018ء سے 2020ء تک 236 افراد کوغداری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔