پاکستان کو آزاد ہوئے 75سال ہوگئے ہیں اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں قدرت نے ایسے خطے سے نوازا جو قدرتی وسائل میں خود کفیل ہے‘ ہم قدرتی وسائل میں اتنے مالا مال ہیں کہ اگر ان 75سالوں میں صرف قدرتی وسائل جن میں گیس، پانی، کوئلہ، معدنیات اور دیگر وسائل شامل ہیں پر ہی توجہ دی جاتی تو آج ہمیں کسی کے سامنے کشکول پھیلانے کی ضرورت نہ ہوتی، شومئی قسمت کہ آج تک ہمیں بعض ایسے لوگ بھی ملے جنہوں نے ملکی وسائل میں اضافہ کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے ان وسائل کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہی وجہ ہے کہ ہم آزادی کے 75سال بعد حقیقی معنوں میں آزاد نہ ہوسکے اور اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوسکے۔کسی بھی ملک کی معاشی واقتصادی ترقی میں دیگر شعبوں کے علاوہ برآمدات کا شعبہ بھی خصوصی اہمیت رکھتا ہے برآمدات سے جہاں معاشی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں وہیں زرمبادلہ میں اضافہ کا باعث بھی بنتی ہیں۔بر آمدات کا شعبہ خصوصی توجہ کا حامل ہے حکومت کو برآمدات کے فروغ کے لئے مزید سہولتیں اور مراعات بھی دینی چاہئیں تاکہ برآمدات کنندگان کا اس طرف رجحان بڑھے۔اس مقصد کے لئے بیرونی دنیا میں پاکستانی مصنوعات کی کھپت کے لئے منڈیاں بھی تلاش کرنی چاہئیں جس سے ایک طرف ملک کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوگا جبکہ معاشی واقتصادی سرگرمیاں بڑھنے کے باعث لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے جو ملک کی ترقی وخوشحالی کا باعث ہوگا۔دنیا کے بیشتر ممالک نے ان نظریات کو سامنے رکھ کر اپنی برآمدی پالیسیاں تشکیل دیں اور ان پر عملدرآمد کرکے اپنی برآمدات کو کہیں سے کہیں پہنچادیا۔ مثلاً بنگلادیش 40ارب ڈالر، ملائیشیا280ارب ڈالر، ویت نام 240ارب ڈالر،تھائی لینڈ 250ارب ڈالر اور سنگاپور 411ارب ڈالر، انڈیا کا نام اس لیے نہیں لیا کہ وہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بڑا ملک ہے۔
جن ممالک کا ریکارڈ پیش کیا گیا وہ پاکستان سے چھوٹے ہیں اور تو اور بنگلادیش بھی ہم سے آگے ہے۔جب کہ پاکستان کی برآمدات کا حجم تین سال پہلے 21ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں لیکن اس کے بعد بجائے بڑھنے کے ان میں کمی آرہی ہے‘مالی سال2020-21کے پہلے ماہ جولائی میں حکومت کی جانب سے کچھ رعایتیں دینے کے بعد 2ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کی گئیں جو پچھلے سال کے ماہ جولائی کے مقابلے میں 5.7فیصد زیادہ ہیں اس پر سرکاری سطح پر شادیانے بجائے جارہے ہیں۔وزارت خزانہ، تجارت اور منصوبہ بندی کو وسیع البنیاد اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔برآمدات نے ہمیشہ ملکوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے، ترقی یافتہ ممالک بھی اس لیے ترقی یافتہ کہلوائے کہ ان کی برآمدات بھی ریکارڈ پر تھیں جن میں امریکہ، یورپ، آسٹریلیاسمیت متعدد ممالک شامل ہیں اورجن کی برآمدات ہی ان کی ترقی کا اہم ذریعہ ہیں۔ برآمدات کے باعث دنیا کے متعدد ممالک میں بے روزگاری کا خاتمہ ہوا اور لاکھوں افراد کو روزگار بھی ملا مگر جن ممالک میں برآمدات کا کلچر فروغ نہیں پاتا اور دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کو ترجیح نہیں دی جاتی تو وہاں کے عوام ہمیشہ مالی مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔افراد کو روزگار نہیں ملتا، مالی مشکلات کے باعث عوام تشویش میں مبتلا رہتے ہیں، تاہم ترقی پذیر ملکوں کی سطح پر ایسی صورت حال میں مالی معاملات پورے کرنے کے لئے قرضوں کے حصول کے لئے آئی ایم ایف اور ولڈ بینک کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے جس طرح آج کل پاکستان برآمدات کے کلچر کے نہ ہونے کی وجہ سے قرضوں کے حصول کے لئے بار بار آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر کے حصول کے لئے رجوع کرتا ہے۔
عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد موجودہ اتحادی حکومت کے وفاقی وزیر خرانہ مفتاح اسماعیل بھی آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لئے واشنگٹن گئے مگر صد افسوس کہ وفاقی وزیر خزانہ اگر پاکستان میں سرپلس چینی کے حوالے سے وفاقی وزارت خزانہ اور وفاقی وزارت تجارت سے بریفنگ لے لیتے تو انہیں بتایا جاتا کہ اس وقت پاکستان میں چینی کے ذخائر سرپلس ہیں اور اگر سر پلس چینی برآمد کر دی جائے تو پاکستان کو ایک ارب ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ حاصل ہو سکتا ہے۔وفاقی وزیر خرانہ بھی تو آئی ایم ایف سے قرضہ کے لئے مذاکرات کے مختلف ادوار میں مصروف ہیں پاکستان کو آئی ایم ایف کی وہ شرائط تسلیم کرنا ہونگی جو کہ عوام کی زندگی کو اجیرن بھی بنا سکتی ہیں، جن میں بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں اضافہ شامل ہے۔اس کے علاوہ ایندھن پر جو سبسڈی دی جا رہی ہے اس کا خاتمہ بھی شامل ہے۔‘ذرائع کے مطابق ضروریات کے مطابق پاکستان کو ہر سال 60لاکھ ٹن چینی درکار ہوتی ہے مگر آج پاکستان کے پاس 80لاکھ ٹن چینی کے ذخائر موجود ہیں جس میں 20لاکھ ٹن چینی سرپلس ہے۔چینی کے حوالے سے اس طرح کی صورت حال اگر کسی اور ملک میں ہوتی تو اس ملک کے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ سب سے پہلے سرپلس چینی ایکسپورٹ کرنے کا فیصلہ کرتے مگر افسوس کہ چینی کی ایکسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی شوگر انڈسٹریز شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔رواں سال شوگر ملوں کو ورکنگ کپیٹل نہیں ملا جس کے باعث شوگر انڈسٹریز سے منسلک لاکھوں افراد کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی ناممکن نظر آرہی ہے، ذرائع کے مطابق مارکیٹ میں چینی کا کیش فلو ختم ہو چکا ہے چینی اگر سرپلس پیداوار کی جا چکی ہے تو پھر وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شوگر انڈسٹریز کو اربوں روپے کے نقصان سے بچائے ورنہ شوگر انڈسٹریز کسی بڑے بحران کا شکار ہو سکتی ہے اور لاکھوں افراد اپنے روز گار سے ہاتھ بھی دھو سکتے ہیں۔وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف ان معاملات کو بخوبی جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں ان کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر شوگر انڈسٹریز اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن سے مذاکرات کریں اور انہیں اس بحرانی کیفیت سے نکالیں اور سرپلس چینی کی ایکسپورٹ کے لیے فوری احکامات صادر فرمائیں۔