اک نایاب تحفہ

مشین نے زور سے سیٹی بجادی بس پھر کیا تھا مجھے ایک طرف ہو کر کھڑے ہو جانے کا اشارہ کر دیا گیا میں ٹورانٹو کے پیٹرسن ائرپورٹ پر کھڑی تھی اور اسلام آباد کی پرواز میں جانے کیلئے مسافر ڈیپارچر لاؤنج میں جانا شروع ہوگئے تھے میں خود بھی حیران ہوگئی آخر میرے ہینڈبیگ میں ایسا کیا ہے جو مشین اس پر غصے سے بھرگئی ان دنوں امریکہ کے شہر نیویارک میں ایک جہاز عمارتوں سے ٹکرا کر ایسی تباہی برپاکرگیا تھا کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو  شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا تھا۔ مشین کی پکار اسی تباہی کا شاخسانہ تھا میرے ہینڈبیگ کو تین آفیسرز نے اپنے سامنے کھول دیا پہلے تو میں نے رب کا شکر ادا کیا کہ میں نے بالکل نئی چیزیں اور بڑے قرینے سے اس بکس کو بنایا ہوا تھا ورنہ بے ترتیب لوگوں کا ٹیگ بھی مجھے لگ سکتا تھا تلاش کے بعد ایک چھوٹا سا گفٹ بکس آخر کار ڈھونڈ لیا گیا جو ایک میک اپ کٹ تھی اور اس میں ننھی سی قینچی مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی معلوم ہوا ایک مشین الگ سے یہاں نصب ہے جو صرف قینچی کو دیکھ کر زور سے سٹی بجاتی ہے وہ تحفہ ہاتھ میں لیکر آفیسر بولا میڈیم آپ یہ ساتھ لے کر جہاز میں سفر نہیں کر سکتیں وہ سامنے ڈسٹ بن ہے یعنی کوڑھے کا ڈبہ اس میں ڈال دیں میں نے پوچھا کیا میں اپنے بیٹے کو دے سکتی ہوں جو مجھے خدا حافظ کہنے آیا تھا اور دور سے تلاشی کے یہ مراحل دیکھ رہا تھا جس کا جواب اثبات میں تھا اور یوں میرا اپنایہ قیمتی  تحفہ جو جاپان کی اک سوغات تھا بال بال بچ گیا یہ واقعہ آج تک مجھے یاد ہے اور ایسا ہی ایک واقعہ میں نے آج پڑھا تو مجھے احساس ہوا کہ ائرلائنز میں آج تک بھی یعنی20سال گزر جانے کے بعد بھی نیو یارک میں اس واقعے کی یاد ہنوز منائی جاتی ہے اور ہاتھ میں لے جانے والے سامان میں کوئی نوکیلی چیز‘ شیشے کی چیز‘ بوتلیں وغیرہ لے جانا سختی سے منع ہیں جیک اور کیتھی دوست تھے کیتھی نے ٹورنٹو ائرپورٹ سے کیوبک سٹی کیلئے فلائیٹ لینی تھی پیٹرسن ائرپورٹ پر کرسمس کی وجہ سے بہت رش تھا بلکہ ایک خبر کے مطابق22دسمبر کو25لاکھ لوگوں نے اس ائرپورٹ کو استعمال کرتے ہوئے

مختلف ملکوں اور شہروں کا رخ کیا کیتھی بھی اپنی فلائیٹ کی لمبی لائن میں لگ گئی تلاشی بھی عروج پر تھی کیونکہ برطانیہ میں ایک ائرپورٹ پر کچھ تخریب کاری انہی دنوں ہو چکی تھی ہاتھ کا سامان بہت باریکی سے چیک کیا جارہا تھا کیتھی نے دیکھا ایک بزرگ ہاتھ میں ایک گفٹ پیکٹ پکڑے تلاشی کے مرحلے سے گزرا اور آفیسرز نے اس کے اس پیکٹ پر اعتراض کر دیا کہ وہ ساتھ نہیں لے جا سکتا بزرگ جو گورا تھا اور یقینا یہ اسکے ہاتھ میں کرسمس گفٹ تھا منت سماجت پر اتر آیا لیکن آفیسر کا انکار‘ اقرار میں نہ بدل سکا سامنے بہت بڑا ڈسٹ بن تھا شاید میری طرح اسکا کوئی عزیز آس پاس نہ تھا جس کو یہ گفٹ واپس گھر لے جانے کیلئے دے دیتا اسکی تھکی ہوئی رنجیدہ کیفیت دیکھ کر صاف لگ رہا تھا کہ یہ تحفہ اس بزرگ کیلئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے بزرگ گیا اور آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں سے تحفہ ڈسٹ بن میں ڈال دیا۔ کیتھی بھی بہت زیادہ رنجیدہ ہوگئی اس نے اپنے دوست جیک کو رخصت کرتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کی جیک بھی اس کے ساتھ یہ سب معاملہ دیکھ رہا تھا اور پھر کیتھی کا جہاز اڑان بھرگیا جس میں بزرگ بھی چلا گیا جیک کیلئے یہ ایک مشن تھا جو اسکی دوست اسکو سونپ گئی تھی وہ سیدھا ڈسٹ بن کے پاس گیا اور وہ تحفہ اس میں نکال دیا اور گھر کی طرف جانے کیلئے گاڑی روانہ ہوگئی کیتھی کے واپس آنے تک وہ تحفہ گھر میں پڑا رہا کیتھی تقریباً پندرہ دن بعد واپس لوٹ کر آگئی وہ تحفہ کھول کر دیکھنے کیلئے بے تاب تھی یہ ایک شیشے کا چھوٹا ساگھر تھا جسکے اندر ایک فریم تھا

اور اس میں ایک تصویر کنندہ کی ہوتی تھی جس میں ایک ننھی بچی دو بزرگوں کے درمیان میں بیٹھی ہوتی تھی ایک تو وہ بوڑھا شخص تھا جو کیتھی دیکھ چکی تھی لگتا تھا یہ بچی ان کی پوتی یا نواسی تھی اور یہ اس کا کرسمس کا تحفہ تھا کمال بات یہ تھی کہ جس نے بھی یہ تصویر شیشے کے گھر کے اندر جڑی ہوئی  تھی کمال کی ہنرمندی کی ہوئی تھی اس تحفے پر کوئی فون نمبر اتہ پتہ موجود نہیں تھا کیتھی کا دل بہت خفا ہوا لیکن اسکو علم تھا کہ یہ دو کلو وزنی شیشے کا تحفہ ہاتھ میں لے کر کبھی بھی جہاز کا سفر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی کیتھی اور جیک نے بہت غور وخوض کے بعد فیس بک کا سہارا لیا شاید وہ یہ تحفہ بزرگوں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دے سکے کیتھی کا حلقہ احباب بڑا محدود تھا اس نے اپنے دوستوں کو لکھا کہ اس تحفے کی تصویر کو زیادہ سے زیادہ شیئر کردیں لیکن وہ بڑی مایوسی ہوئی جب کئی دن گزرنے کے بعد بھی صرف چند سولوگوں نے ہی اسکو دیکھا اور اپنا نقطہ نظر بھی بیان کیا وہ سمجھ گئی کہ یہ کام اتنے بڑے ملک میں کرنا آسان نہیں لیکن اچانک ایک دن اسکی مایوسی پھر سے امید میں بدل گئی جب اس کمپنی کے ایک سٹاف ممبرنے اسکی پوسٹ پر لکھا کہ شیشے کے اندر تصویر کے جڑنے کا کام صرف ان کی کمپنی ہی کرتی ہے جیک اور کیتھی نے اسکا شکریہ ادا کیا اور مزید کئی دن کی محنت کے بعد کمپنی کے منیجر کے ساتھ اپنی ملاقات طے کرلی کمپنی کے منیجر بالآخر کیتھی ان دو بزرگوں سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوگئی جن کیلئے یہ بات خوشی اور حیرت کا باعث تھی کہ وہ نایاب تحفہ جو کوڑے دان میں پھینکا جا چکا تھا وہ ایک امانت کی طرح کسی ہمدرد انسان کے پاس پڑا ان کا انتظار کر رہا تھا اور پھر بزرگ جوڑا اپنی نواس کے ہمراہ کیتھی کے گھر پھولوں کا گلدستہ لئے ہوئے دستک دے رہا تھا وہ نواسی کہ جس کے ماں باپ ایک کار حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے اور وہ ان کا واحد سرمایہ تھی اور اسکی سالگرہ پر انہوں نے محبت سے یہ فریم شیشے کے اندر یادگار بنانے کیلئے جڑوایا تھا ائرپورٹ سینکڑوں لوگوں سے بھرا ہواتھا لیکن احساس کی دولت سے مالامال کیتھی تھی جسکی خواہش کا احترام جیک نے کیا اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ سب ممکن ہوگیا۔