پاکستانی روپیہ ہی نہیں پوری دنیا کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں گر رہی ہیں کیونکہ امریکہ نے شرح سود بڑھا دیا ہے۔ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا،انڈیا سب ملکوں کی کرنسی گری ہے اور مسلسل گررہی ہیں۔ ہمارا پٹرول ہمارا نہیں ہے بلکہ باہر سے آتا ہے۔ائیر کنڈیشنر 26سے اوپر نہ جانے دیں۔ایک سال برانڈزکے کپڑے نہ خریدنے سے ہمارے تن کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔کھانے پینے اوڑھنے پہننے اور رہنے میں ہر ولایتی شے کا استعمال ترک کردیں اور مقامی اشیاء استعمال کریں۔بچت کا قومی مزاج بنانا ہوگا۔وزراء اور ممبران اسمبلی کے مفت پٹرول، بجلی، سفر رہائش اور علاج کے حوالے سے کفایت شعاری ضروری ہے۔اربوں پت صنعتکاروں اور رئیل اسٹیٹ ٹائیکونز کو ٹیکس سبسڈی کا معاملہ بھی ختم ہونا ہوگا۔ آئیے سب مل کے عہد کریں اور حکومت پر زور دیں کے وہ میشاق جموریت کی طرز پر میشاق معیشت بھی بنائے اور یہ اقدامات فوراً کرے۔
ایک بل پاس کرے جس میں صرف وہ سیاسی جماعتیں الیکشن میں حصہ لینے کی اہل ہو نگی جو اپنا معاشی منشور دیں گی۔فوری طور پر لگژری اور غیر ضروری اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کریں۔سٹیٹ بینک فوراً کمرشل بینکوں کو آڈر کرے کے گھریلو صارفین کیلئے سولر انرجی لگانے کیلئے آسان شرائط پر قرضے دے اس سے بھی زرمبادلہ بچے گا اور لوڈ شیڈنگ ختم ہو گی،تجارتی خسارہ کم کرنے کیلئے درآمدی انڈسٹری کو مراعات دی جائیں اور ملک کی فضا ایسی کی جائے کے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد بحال ہو اور وہ ملک میں انویسٹ کریں،تمام غیر ضروری سبسڈی ختم کر دی جائے‘اس وقت پاکستان میں ڈالر کی اونچی اُڑان جاری ہے جس کی وجہ سے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانی روپیہ ڈالر کے سامنے بدترین گراوٹ کا شکار ہے۔کاروباری مندی کے سبب مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے1کھرب23ارب ے سے زائد ڈوب گئے جس کی وجہ سے سرمائے کا مجموعی حجم 71 کھرب روپے سے گھٹ کر 70کھرب روپے رہ گیا۔کاروباری مندی کی وجہ سے 77.35فیصد حصص کی قیمتیں بھی گھٹ گئیں۔
سیاسی افق پر چھائی غیر یقینی صورتحال، آئی ایم ایف کا سبسڈیز ختم کرنے پر دباؤ، مہنگائی مزید بڑھنے کے خدشات اور سرمایہ کاری کیلئے کوئی بھی شعبہ موزوں نہ ہونے پر سرمائے کے انخلاء کی وجہ سے پاکستان سٹاک مارکیٹ مندی کی زد میں آگئی۔وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں زرمبادلہ کی موجودہ صورت حال اور بڑھتے ہوئے کرنسی ایکسچینج ریٹ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کو صورت حال کی بہتری کیلئے جامع حکمت عملی وضع اور اس سلسلے میں ہنگامی بنیادوں پر مؤثر اور قابل عمل پلان پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر اور کرنسی ایکسچینج ریٹ کے حوالے سے اجلاس ہوادریں اثناء وزیر اعظم شہباز شریف نے ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت پر صدر فاریکس ایسوسی ایشن اور چیئرمین ایکسچینج کمپنیزملک محمد بوستان سے رابطہ کرکے تشویش کا اظہار کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے زوم پر چیئر مین ایکسچینج کمپنی اور صدر فاریکس ملک محمد بوستان سے بات کر کے ڈالرکی بڑھتی ہوئی قیمت پر گہری تشویش کا اظہارکیا اور اس کی وجوہات پوچھیں۔
ملک بوستان نے وزیراعظم میاں شہباز شریف کو بتایا کہ ڈالر بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ تجارتی خسارہ، آئی ایم ایف نے پاکستان کو جو ایک ارب ڈالر کا قرضہ دینا تھا اس میں تاخیر ،سیاسی عدم استحکام، بے تحاشا قرضے ہیں جو کہ ایک سال میں ادا کرنے ہیں، جب تک انٹر بینک میں ڈالر کا ریٹ کم نہیں ہوگا اس وقت تک فری مارکیٹ میں ڈالرکاریٹ کم نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے بتایا کہ کمرشل بینک انٹر بینک میں 1روپیہ گرائیں گے تو ہم فری مارکیٹ میں 2روپے گرائیں گے،فری مارکیٹ کو ہم کنٹرول کر سکتے ہیں، انٹربینک مارکیٹ کا سارا کنٹرول ہمارے پاس نہیں بلکہ کمرشل بینکوں کے پاس ہے۔ اس وقت ایکسچینج کمپنیاں ریٹ نہیں بڑھار ہیں، کمرشل بینک انٹر بینک میں بڑھارہے ہیں امپورٹر پہلے کی نسبت امپورٹ کیلئے زیادہ لیٹر آف کریڈٹ(ایل سی)اوپن کر رہا ہے جبکہ ایکسپورٹر پہلے کی نسبت اپنی کم ایکسپورٹ کے ڈالر سرینڈر کر رہا ہے جس کی وجہ سے انٹر بینک مارکیٹ میں ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے اور سپلائی کم ہوگئی ہے۔
ملک بوستان نے وزیراعظم پاکستان کو بتایا کہ اس وقت پاکستان کی ماہانہ امپورٹ تقریباً6.25ارب ڈالر جبکہ ایکسپورٹ اور ورکر ریمیٹنس6.10ارب ڈالر ہے،اگر ہر ماہ حکومت ایک ارب ڈالر کے لگژری آئٹم کم منگواتی ہے تو سال میں ہمارے 12 ارب ڈالربچ سکتے ہیں، اگلے سال 12ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں جو قرضے لیے بغیر بھی ادا ہو سکتے ہیں۔ ڈالر کی قدر میں اضانے اور روپے کی قدر میں کمی کے مہنگائی کے علاوہ ملک کی مجموعی معاشی صورتحال پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔قومی کرنسی کا مضبوط ہونا معاشی ترقی کا ایک اہم اشاریہ ہے جو گزشتہ چند برسوں میں غیرمعمولی طور پرگراوٹ کا شکار ہوئی ہے۔‘ فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق امریکی ڈالر انٹر بینک میں کاروبار کے دوران 200روپے کی پریشان کن حد بھی عبور کر گیا ہے جو گزشتہ روز 199روپے پر بند ہوا تھا۔
ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدرحکومت کے علاوہ ماہرین کیلئے بھی پریشان کن ہے، اور کئی معاشی ماہرین نے اسے پاکستانی معیشت کیلئے سیاہ دن سے تعبیر کیا ہے۔خیال رہے کہ حکومت نے حال ہی میں زرمبادلہ کے ذخائرکو درآمدات پر خرچ کرنے سے روکنے کیلئے ہنگامی اقدامات کیے ہیں جس کے بعد حکومت پرامید ہے کہ روپے کی گراوٹ کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ اور جلد ہی معیشت اس مشکل مرحلے سے گزر کر اس مقام پر آ جائے گی جہاں سے آسانی کا سفر شروع ہو جائے گا تاہم اس کے لئے صرف حکومتی اقدامات پر اکتفا کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ہر کسی کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے‘مشکل مرحلہ ضرور ہے تاہم چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے تو کامیابی کا حصول یقینی ہے۔