چین نے خلا میں دنیا کے پہلے شمسی توانائی سے کام کرنے والے پاور پلانٹ کے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔
اس منصوبے کے تحت چین 2028 تک خلا سے شمسی توانائی کو واپس زمین پر بھیجنے میں کامیابی حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق چین کی جانب سے ایک سیٹلائیٹ کو آزمائشی طور پر زمین کے مدار میں بھیجا جائے گا جہاں وہ سورج کی روشنی کو جذب کرکے سولر انرجی کو زمین کے چند مخصوص مقامات پر واپس بیم کے ذریعے بھیجے گا۔
یہ توانائی پہلے مائیکرو ویوز یا لیزر میں تبدیل کی جائے گی اور پھر اسے کسی اور جگہ منتقل کیا جائے گا۔
ماہرین کو توقع ہے کہ خلا میں تیار ہونےوالی شمسی توانائی زیادہ مؤثر ہوگی کیونکہ وہاں سولر پینلز کو سورج کی زیادہ شدت والی روشنی مل سکے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی اگر بڑے پیمانے پر دستیاب ہو تو دنیا کے مختلف ممالک کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی لانے میں مدد مل سکے گی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اہداف کا حصول ممکن ہوگا۔
چین 2060 تک اپنے ملک کو کاربن فری بنانے کا عزم رکھتا ہے۔
مختلف ممالک کی جانب سے خلا میں شمسی توانائی کے حصول کے منصوبوں پر غور کیا جارہا ہے مگر اب تک یہ خیال ہی ہے، البتہ چین کی جانب سے اس پر عملدرآمد کو تیز کیا جارہا ہے۔
چین کی جانب سے جس سیٹلائیٹ کو آزمائشی طورپر بھیجا جائے گا وہ 10 کلو واٹ بجلی تیار کرے گا۔
واضح رہے کہ شمسی توانائی کا یہ منصوبہ چین کے خلائی پروگرام کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
چین نے 2030 تک اہم خلائی طاقت بننے کا ہدف طے کررکھا ہے اور اس حوالے سے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔
چین کا نیا خلائی اسٹیشن دسمبر 2022 میں مکمل ہوجائے گا جس سے مستقبل میں چاند اور مریخ پر بھیجے جانے والے مشنز کو زیادہ مدد مل سکے گی۔