مجھ جیسے اوربہت سارے لوگ بھی اس بات کو سمجھنے سے شاید قاصر ہوں کہ تعلیم کی مزید زبوں حالی کی گنجائش اب بھی موجود ہے؟ اس حالت کو دیکھتے ہوئے بعض سنجیدہ لوگوں کی رائے تو مایوسی میں لپٹی ہوئی اب تو کچھ اس طرح سامنے آ رہی ہے کہ ارے تعلیم میں رکھا ہی کیا ہے؟ اگر ایک نادار باپ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو میٹرک یا ایف اے تک پڑھائے بھی تو کیا؟ اب تو اس مملکت خداداد میں نائب قاصد‘ مالی‘ ڈرائیور‘ چوکیدار اورپرائمری ٹیچر بننے کیلئے بھی ان بڑوں کی بیساکھیوں کی ضرورت ہوتی ہے‘اندازہ لگالیں کہ اس موجودہ مہنگائی میں جس کے بوجھ تلے ہر غریب باپ ہانپتاہوا سانس لینے پر مجبور ہے اپنے بچے کیلئے قلم و دوات‘ تختی سلیٹ اور قاعدہ خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے؟ موجودہ ناقابل برداشت بلکہ بلا جواز مہنگائی کے عوض غالباً90 کروڑ ڈالر سودی قرضے کی جو پہلی قسط ملے گی اس میں یہ حساب کتاب اور احتساب ضروری نہیں ہو گا کہ غرباء و مساکین اور بیچاری تعلیم پر کتنے پیسے خرچ ہوں گے؟ مفلوج اور لاچار تعلیم کے پر مزید کاٹنے کی تیاری کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ملازمین ایک بار پھر سیخ پا ہو کر احتجاج کیلئے پر تول رہے ہیں مگر جو اب طلب نکتہ یہ ہے کہ جس وقت اعلیٰ تعلیمی ادارے صوبوں کے حوالے کئے جا رہے تھے اور وہ بھی باوجود اس کے کہ صوبے یونیورسٹیوں کو سنبھالنے اور چلانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے تھے تو اس وقت جامعات کے ملازمین کہاں تھے؟
ان لوگوں نے تو اس بلا جواز طریق کے خلاف بھی کبھی جی بھر کر دو ٹوک احتجاج نہیں کیا کہ جب یونیورسٹیاں وفاق کے پاس نہیں تو اس کا بجٹ کیونکر مرکز کے پاس رکھا گیا ہے؟ مزید برآں غیر ضروری طور پر اعلیٰ تعلیمی کمیشن اسلام آباد کو برقرار رکھنے کا کیا جواز ہے؟ کمیشن پر سالانہ جو اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں کیا اس سے آٹھ دس یونیورسٹیوں کے کم از کم نصف سال کے اخراجات پورے نہیں ہوتے؟ بلا شبہ کہ ملک کی معیشت تباہی سے ہمکنار ہے اور بعض عاقبت اندیش لوگ دوسرے سری لنکا کے نمودار ہونے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں مگر جواب طلب امر یہ ہے کہ ملک کو اس ابتر حالت سے دو چار کرنے میں ملک کے غرباء و مساکین اوربیچاری تعلیم کا قصور کتنا؟ اور ذمہ داری کتنی بنتی ہے؟ اس عظیم ملک سے جس میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں وابستگی کے احساس اور حب الوطنی کا تقاضا تو یہ ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ ملک میں غریب اور تعلیم کو درگور ہونے سے بچانے کیلئے آئین سے رجوع کیا جائے آیا یہ حقیقت اس ملک کے کرتا دھرتا طبقے سے ڈھکی چھپی ہے کہ افغانستان جیسے ملک میں انتخابی امیدوار کے انتخاب کیلئے ان کے حلقہ انتخاب کے رجسٹرڈ ووٹوں میں سے51 فیصد کا حصول ایک لازمی آئینی امر ہے کیا یہ حقیقت نہیں کہ دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک سے بھی ہمارا تعلیمی بجٹ کم اور شرح خواندگی میں سب سے پیچھے ہیں؟ کسی نے یہ سوچا تک نہیں کہ پاکستان پولیو فری ملک کیوں نہیں بنا؟ آیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم اپنے فرائض کی بجاآوری میں احساس ذمہ داری اور انسانیت کی بھلائی اور تحفظ کے بارے میں ناگزیر شعور سے محروم ہیں؟
حقیقت تو یہ ہے کہ کٹوتی تو کیا پہلے سے مختص بجٹ سے بھی تعلیم کا زندہ رہنا اور چلنا ممکن نہیں اور نہ ہی پٹرولیم مصنوعات کے اخراجات میں چنگ چی ہولڈر وغیرہ لوگوں کو ریلیف کارڈ دینے سے ناقابل برداشت مہنگائی کے کمر توڑ بوجھ میں کوئی کمی آ سکتی ہے۔ اس عظیم ملک سے وابستگی جبکہ اس کے ابتر حال عوام کی زندگی کا تقاضا ہے کہ غریب اور تعلیم کو مزید بربادی سے بچایا جائے بصورت دیگر کسی قسم کی بہتری‘ ترقی اور استحکام کی توقع رکھنا دانشمندی نہیں ہو گی آیا یہ حقیقت نہیں کہ اعلان شدہ وفاقی بجٹ میں اگر کوئی بنیادی کمی رہ گئی ہے تو وہ یہ ہے کہ غریب آدمی کو مہنگائی سے بچانے اور فروغ تعلیم کیلئے کچھ بھی نہیں‘ بجٹ میں ملک بھر کی جامعات یعنی اعلیٰ تعلیم کیلئے 65 ارب روپے تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق سے بھی کم ہیں گزشتہ حکومت سے قبل یہ بجٹ 80 ارب کے قریب تھا لہٰذا انصاف کا تقاضا اور تعلیم کی ضرورت تو یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی بجٹ کم از کم ایک کھرب ہو‘ یہ ملازمین کیلئے توقع سے پانچ فیصد زائد جس اضافے کاجو اعلان کیا گیا ہے یہ بھی کوئی کارنامہ تصور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ تو بیچارے بوڑھے بیمار پنشنرز سے پانچ فیصد کاٹ کر حاضر سروس کو دیئے گئے ہیں۔