وفاقی کابینہ نے گزشتہ دنوں نئے مالی سال 2022-23کے بجٹ کی منظوری دے دی۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15جبکہ پنشن میں 5فیصد اضافے کی منظوری دیدی گئی ہے۔ آئندہ مالی سال کیلئے اخراجات کا تخمینہ 9ہزار 502ارب روپے، ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے سے 71ارب 59 کروڑ کا بوجھ پڑے گا۔ کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کی پٹرول کی حد کو 40 فیصد کم، حکومتی خرچ پر لازمی بیرونی دوروں کے علاوہ تمام دوروں پر پابندی ہوگی۔ آئندہ مالی سال گروتھ کا ہدف 5 فیصد،جی ڈی پی کو 67 کھرب سے بڑھا کر78.3کھرب تک پہنچایا جائے گا۔ مہنگائی کی شرح11.5 فیصد پر لائی، ٹیکس کی شرح جی ڈی پی کے9.2فیصد لے جائی جائیگی، مجموعی خسارہ8.6فیصد ہے، اس کو کم کر کے4.9فیصد پر لایا جائے گا۔ رواں مالی سال درآمدات 76ارب ڈالر کی متوقع ہیں، در آمدات 35 ارب ڈالر تک بڑھانے کے اقدامات کیے جائیں گے، آئندہ مالی سال ترسیلات زر33.2ارب ڈالر بڑھنے کی توقع ہے، رواں سال جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا حصہ8.6فیصد ہے۔ بجٹ میں اگلے سال جی ڈی پی میں ٹیکسز کی شرح 4.9فیصد تک لائی جائے گی۔ رواں سال ایف بی آر کی ٹیکس وصولیاں 6ہزار ارب روپے ہوں گی.
ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں صوبوں کا حصہ 3501ارب روپے رہا، آئندہ مالی سال در آمدات میں کمی لاکر 70 ارب تک لائی جائیں گی۔ اگلے سال ٹیکس وصولیوں میں صوبوں کا حصہ 4100ارب روپے ہو گا، وفاقی حکومت کی نیٹ آمدن 4904ارب روپے ہو گی، نان ٹیکس ریونیو 2ہزار ارب روپے ہو گا۔ اگلے سال وفاقی حکومت کے کل اخراجات 9502ارب روپے ہوں گے، اگلے مالی سال کے دوران قرض کی ادائیگی پر 3950ارب روپے خرچ ہوں گے۔ 16سوسی سی سے زائد کی گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس میں اضافے کی تجویز ہے، نان فائلرز کیلئے ٹیکس کی شرح 100فیصد سے بڑھا کر 200فیصد کرنے کی تجویزبھی قابل ذکر ہے۔ الیکٹرانک انجن کی صورت قیمت کا2 فیصد ایڈوانس ٹیکس لیے جانے کی تجویز ہے۔ اگلے سال تنخواہ دار طبقے کیلئے ماہانہ 1لاکھ روپے تنخواہ پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا، اس کے علاوہ انفرادی، ایسوی ایشن پرسنز پرٹیکس چھوٹ کی بنیادی حد 4لاکھ سے بڑھا کر 6لاکھ کر نیکی تجویز ہے۔ نئے بجٹ میں بہبود سیونگ سر ٹیفکیٹ اور پینشنر ز بینیفٹ اکاؤنٹس پرٹیکس 10فیصد سے کم کر کے 5فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
شہداء کی فیملی پرٹیکس 10فیصد سے کم کر کے 5فیصد، چھوٹے ریٹیلرز کیلے فکس ٹیکس مقرر، 3ہزار سے 10ہزار روپے ماہانہ ہو گا،یہ ٹیکس ریٹیلر سے بجلی کے بلوں کے ساتھ وصول کیا جائیگا۔۔حکومت نے اس بجٹ میں زراعت، آئی ٹی اور برآمدات کے حوالے سے اچھے اقدام اٹھائے جن میں زرعی مشینری اور اجناس پر اور آئی ٹی سے متعلقہ سامان کوٹیکس سے مستثنی قرار دیا گیا، زراعت ہمارے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لہٰذا زراعت کے شعبے میں قابل قدر ترقی کیلئے یہ بات ضروری ہے کہ اس شعبے پر بالخصوص توجہ دی جائے، کسان کوبیج اور کھا د،بجلی میں سبسڈی کے ساتھ ساتھ ہرطرح کے ماحول کو ساز گار بنایا جانا چاہئے جس میں یہ شعبہ پوری طرح سے پنپ سکے۔ امیر طبقے کی مراعات کو ختم کرنے اور غریب کی معاشی حالت میں بہتری لانے کا عندیہ بھی قابل تحسین ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امرا ء کی مراعات کے حوالے سے پرتعیش در آمدات کے بڑھنے سے سرمائے کا کثیر حصہ اس کینذر ہوجاتا ہے.
ایسے رحجان کی حوصلہ شکنی جبکہ ان تمام پالیسیوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ جن پر عملدرآمد سے درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ ہو سکے،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ حکومت کا اس مشکل معاشی صورتحال میں احسن اقدام ہے۔ حکومت کے اس اقدام سے سرکاری ملازمین کو بڑی حد تک ریلیف ملے گا۔ جہاں تک ملک کے8کروڑوہ لوگ جن کی تنخواہیں 40ہزار سے کم ہیں ان کو دو ہزار روپے کا ریلیف دینے کی بات ہے، تو اس ضمن میں حکومت کو کڑا چیک رکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ تمام منصوبے جو معیشت میں استحکام کیلئے اور ملک کی تعمیر وترقی کیلئے لائے گئے ہیں، انہیں تیزی سے تکمیل تک پہنچایا جائے۔مثبت امر یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ملک میں معاشی استحکام کیلئے پرعزم بھی ہیں اورمتحرک بھی لہٰذا وہ معیشت کی ڈانواں ڈول ناؤ کنارے لگالیں گے۔