ٹیولپ کے پھولوں کی خوشبو

کچھ دن ہوئے میری اک دوست مڈل ایسٹ کے ملک سے چند مہینے رہ کر واپس آئی اور یہ حقیقت ہے کہ کشادگی‘ صفائی ستھرائی اور سہولتوں کے اعتبار سے مڈل ایسٹ کے چھوٹے ممالک بھی اپنی مثال آپ ہیں یورپین ممالک کی بات یکسر مختلف ہے،امریکہ کینیڈا اور روس جیسے ممالک کے ادارے ان کے سسٹم‘ شہر کی انتظامیہ کاگلیوں سڑکوں کو صاف ستھرا رکھنا‘ لوگوں کا بذات خود صاف ستھرا ہونا حقیقتاً نظر آتا ہے۔ کیا صفائی ستھرائی کا غربت کے ساتھ تعلق ہے۔یہ سوال بڑا اہم ہے آپ اپنے گھر کے کوڑے کرکٹ کو اپنے ہاتھوں سے اپنی ہی سڑک پر پھینک دیں اور گندگی کا ڈھیر بنادیں جس پر آپ‘ آپ کے ہمسائے اور آپ کا خاندان سارا دن چلتا پھرتا ہے تو پھر انتظامیہ سارا دن ساری رات ہی صفائیاں کرتی پھرے۔یہ ایک لا علاج مرض ہے کوئی دنیا کا قانون آپ کی عادات کو نہیں بدلوا سکتا ہاں انتظامیہ آپ کے ساتھ یہ تعاون کرتی ہے کہ اگر آپ صاف ستھرے ہیں تو وہ آپ کیلئے ماحول کو اور زیادہ صاف بنائے‘ ادارے مضبوط اس وقت ہوتے ہیں جب قانون ایسا ہو کہ خلاف ورزی کرنے پر آپ اس کے دائرے میں آجائیں۔اب دائرے میں اگر امیر چل رہا ہے یا غریب‘ قانون کو اس کی پرواہ قطعاً نہیں ہونی چاہئے اس لئے میں خود بھی جب کسی ملک کی سیر کے بعد واپس آتی ہوں تو پہلا تاثر یہی ہوتا ہے کہ ہم کیوں ایسے ہیں گرمی سردی کے موسم تو قدرت نے بنائے ہیں، لیکن ان موسموں میں ہم تعفن پھیلانے کا کام کیوں کرتے ہیں۔

شاید یہ اچھی عادات ہی ہیں جو کسی بھی قوم کو عروج تک لے جانا شروع کر دیتی ہیں ایمسٹرڈم کے ٹرانزٹ لاؤنج میں بیٹھی یہ ساری ہی باتیں میں سوچ رہی ہوں‘ کیا اس میں ہمارا انفرادی کوئی تعلق نہیں سارا قصور رہنماؤں کا ہے افسروں کا ہے اور ہم ایک فرد ہونے کی حیثیت سے اس بات سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ ہمارے ملک کو کون ٹھیک کریگا،اگرچہ یہ ایک بڑی بحث ہے لیکن ہماری نئی نسل ہم سے زیادہ ذہین‘ تعلیم یافتہ اور دنیا شناس ہے وہ پاکستان کو آسمان کی بلندیوں تک لے جائے گی، اسی طرح جیسے وہ1960ء اور اسکے درمیانی عرصے میں نظرآنا شروع ہوگیا تھا میں اپنے اردگرد دیکھ رہی ہوں کہ ہالینڈ کی خواتین بے انتہا صحت مند نظرآرہی ہیں اور کسی عورت کا قد بھی 6فٹ سے کسی طور کم نہیں ہے اور خوبصورت نین نقش کی مالک بھی ہیں دنیا میں بہت سے ایسے خطے موجود ہیں جہاں کے لوگ خوبصورتی میں یکتا ہوتے ہیں ہر ایک فرد کے سامنے خوبصورتی کے اپنے اپنے معیار ہوتے ہیں ہو سکتا ہے جن کو میں حسن کہتی ہوں کوئی دوسرا میرے معیار کو یکسر مسترد کر دے سفر ہمیشہ تجربوں کی دنیا ؤں میں سے ہو کر گزرتا ہے اور مشاہدات کے خزانوں کو بھرتا رہتا ہے میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے گھر سے نکلتے ہی جیسے میرے حواس خمسہ کچھ تیز رفتاری سے کام کرنے لگتے ہیں اور وہ باتیں بھی جو عام مسافر کو عام لگیں مجھے اس میں بھی اک دنیا اور اک کہانی نظر آنے لگتی ہے۔

ٹرانزٹ لاؤنج میں ٹیولپ کے پھولوں کی ایسی خوشبو بسی ہوتی ہے کہ سچ میں لگتا ہے کہ آپ اس ملک میں موجود ہیں جو پھولوں کا ملک اور بے تاج بادشاہ ہے اور پھولوں کی بڑی انڈسٹری ہے،یہاں پیشہ ورانہ طریقے سے پھولوں کا کاروبار اور ایکسپورٹ ہوتی ہے جو آپ جان سکتے ہیں کہ کتنانازک اوردیکھ بھال والا کاروبار ہوسکتا ہے میں نے دیکھا کئی کئی میٹر پر پھیلے ہوئے الیکٹرانک بورڈز ہر طرف لگے ہوئے ہیں جہاں سینکڑوں ہزاروں فلائٹس کا شیڈول سکینڈز کے حساب سے بنایا جارہا ہے ٹیکنالوجی اور خاص طور پر کمپیوٹر کی ایجاد اور ترقی نے دنیا میں حیرت انگیز انقلابات برپا کر دیئے ہیں وہ اخبارات جو کا تب کئی کئی گھنٹوں اور دنوں کے حساب سے کتابت کرتے تھے اب اسکی کمپوزنگ دنیا کی ہر زبان میں ٹھکا ٹھک ہونے لگی ہے۔ ایمسٹرڈم کے ائرپورٹ پر صرف ایک منٹ میں درجنوں جہاز لینڈ کرتے ہیں اور ٹیک آف یعنی روانہ ہوتے ہیں اپنی اپنی منزلوں کی طرف‘ مسافروں میں دنیا کے ہر علاقے کا مسافر نظر آیا گورا‘ کالا‘ براؤن‘ میں نے دیکھا افریقی خاندان اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ اسی لاؤنج میں بیٹھے ہیں،بچے مغرب میں بڑی ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں وہ گھومیں پھریں‘ شرارت کریں ان کو ہر کوئی پیار کر رہا ہوتا ہے اور ان کا خیال رکھ رہا ہوتا ہے جیسے یہ ان کا فرض ہے زیادہ تر مسافر لمبی برتھ،کر سیوں کو تلاش کرتے ہوتے نظر آئے تاکہ کچھ گھنٹے لیٹ کر آرام کیا جاسکے، بعض دو دو کرسیوں کو جوڑ کر نیم دراز ہو کر سفر کی تھکن کو آرام میں بدلنے کی ناکام کوششیں بھی کرتے ہوئے نظر آئے۔