مغربی میڈیا میں جب بھی موقع ملتا ہے اسلاموفوبیا کولے کر بات چیت کی جاتی ہے اور ایسے انٹرویوز اور ٹاک شوز منعقد کئے جاتے ہیں جن کا مقصد اپنی سوسائٹی کو بہترین بتایا جائے اور اپنی اقدار اور روایات پر فخر کیا جاسکے ایسے ہی ایک ٹاک شوز کو میں نے بھی چند دن پہلے ایک مشہور مغربی چینل پر سنا ایک انگریز عورت نے دین اسلام کی تشریح کرتے ہوئے اپنی زندگی کے ایک پہلو کی کہانی سنائی‘ کہانی بہت چھوٹی سی ہے اس نے بتایا کہ وہ اپنے ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے بہت پریشان تھی گھریلو اور ازدواجی زندگی کے کچھ پہلو اس کے کنٹرول میں نہیں رہے تے اس نے سوچا کیوں نہ میں کچھ دن اپنے ملک اپنے شہر سے دور کہیں اور کچھ دن گزاردوں تاکہ میرا ذہن اور دل کسی طور مطمئن ہو جائے اس تمنا اور سکون کو حاصل کرنے کیلئے وہ سب سے بڑی اسلامی مملکت کے جزیروں پر مشتمل ایک جزیرے کے پانیوں کے بارے میں اور ساحل سمندر پر جانے کیلئے تیار ہوگئی یہ ملک انڈونیشیا تھا اور یہی میرا انتخاب تھا میں ہر روز ساحل سمندر پر موجود ہوتی اور اپنی کاٹیج کے قریب ایک پارک میں لمبی واک کرتی تاکہ میرے ذہن و دل میں گھریلو حالات کا شائبہ تک نہ رہے لیکن میرے لاشعور میں کہیں نہ کہیں وہ دکھ اور غم موجود تھا کچھ دنوں کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میں پہلے سے بھی زیادہ کمزور اور دکھی ہوگئی ہوں ایک رات میں بستر پر گئی اور صبح اٹھنے سے قاصر ہوگئی۔
میری کمزوری نقاہت اس حد تک بڑھ گئی کہ میں اٹھ کر پانی بھی نہ پی سکی‘ دو دن کے بعد بخار اور پیاس کی شدت سے میں بالکل قریب المرگ ہوگئی اتنے میں دروازہ کھلا اور ایک عورت میری تلاش میں مجھے اپنی کسی غیر مانوس آواز میں پکارتی ہوئی اندر داخل ہوگئی یہ میری شاید خوش قسمتی تھی کہ دروازہ اس طرح بنا ہوا تھاکہ باہر سے کسی ایمرجنسی کی صورت میں کھل سکتا تھا وہ خاتون میرے قریب آئی میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا میری حالت دیکھی اس نے مجھے اشارے سے تسلی دی اس نے مجھے پانی پلایا اور چلی گئی تھوڑی دیر بعدوہ کچھ دوائیوں اور تازہ کھانے کے ساتھ دوبارہ آئی مجھے دوائی دی اور اپنے ہاتھ سے اٹھاکر تکیوں کے سہارے بٹھا کر کھانا کھلایا مجھے لگا جیسے میں کئی دنوں سے بھوکی تھی اور میری کمزوری بخاراور نقاہت بھوک پیاس کی وجہ سے تھی میں اپنے آپ کو کچھ بہتر محسو س کرنے لگی وہ خاتون جس کی زبان میں نہیں جانتی تھی اور نہ ہی وہ کبھی میری دوست تھی ناآشنائی کے باوجود اس نے کئی دن تک میرا خیال رکھا ہر روز میرے لئے اپنے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا لاتی اور مجھے کھلاتی میرا بستر صاف کرتی یہاں تک کہ میں چلنے پھرنے کے قابل ہوگئی اور اب اپنے وطن کو سفر کرنے کے بھی قابل ہوگئی وہ انڈونیشیا نے اس جزیرے پر رہنے والی مسلمان خاتون تھی اس نے مجھے اپنی زبان اور اشاروں سے بتایا کہ وہ مجھے روزانہ پارک میں واک کرتے ہوئے دیکھتی رہتی تھی سوچوں میں گم تم ادھر ادھر دیکھے بغیر چلتی رہتی تھی اور پھر ایسا ہوا کہ تم دو دن تک مسلسل پارک میں واک کرنے نہیں آئی تو مجھے تشویش ہوئی تیسرے دن تو مجھے یقین ہوگیا کہ تم کسی تکلیف میں ہو اور اس چھوٹے سے جزیرے پر تمہاری رہائش ڈھونڈنا کوئی مشکل نہ تھا۔
اس نے سوچا تھا کہ وہ مجھے دور سے دیکھ کر تسلی کرلے گی کہ میں اچھی ہوں اور چلی جائے گی لیکن معلوم پڑا کہ ہمارے ملک میں آکر یہ تن تنہا عورت بیمار پڑ گئی ہے شاید میرا خدا میری راہبری کرتے ہوئے مجھے تمہارے گھر تمہاری کاٹیج تک لے آیا تھا اور میں سن کر حیران ہوگئی کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک خاتون اتنی حساس اور اپنے خدا اپنے اللہ کو خوش کرنے کیلئے ایک اجنبی عورت کی تکلیف جاننے اور اس تکلیف کو رفع کرنے کیلئے اسکو ڈھونڈتی ہوئی اسکی کاٹیج میں پہنچ گئی اور جو بھی اس سے بن پڑا اسکی صحت مندی تک کرتی رہی اور پھر اس نے مغربی خاتون اپنے ٹی وی میزبان سے کہا میرے نزدیک یہ اسلام تھا اور اس خاتون کا رویہ اور اسکا حسن سلوک دین اسلام کی تشریح تھا جو میں اپنی پوری زندگی کبھی بھلا نہیں سکتی‘ یہ ٹاک شو سن کر میں خود بری متاثر ہوئی بحیثیت مسلمان ہمارے لئے اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی تکلیف میں ان کے کام آنا سب سے زیادہ افضل بات ہے دیارغیر میں تو یہ بات بہت ہی زیادہ محسوس ہوتی ہے جب کہ ان ممالک میں وقت کی کمی لوگوں کے پاس ہے نوکریوں میں الجھے ہوئے لوگوں کو اپنے اور پرایوں کے دکھوں میں شریک ہونا محال لگتا ہے یہاں تک کہ اگر کوئی ہسپتال میں پڑا ہے تو اس کا گھر بچے تمام کسمپرسی کی حالت میں چلے جاتے ہیں ایسے میں اگر کوئی گھر سے پکا ہوا کھانا آپ کیلئے بھیج دیتا ہے یا پھر آپکے بچوں کو اپنے پاس ایک دو دن کیلئے رکھ لیتا ہے ان کی حفاظت کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں ہوتی اگرچہ پردیس میں یہ نیکیاں ذرا کم کم ہی ہوتی ہیں لیکن خدا ترس لوگوں کی کمی دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے قدرت خود بخود ایسے اسباب مہیا کردیتی ہے اور میرا یہ ایمان ہے کہ مدد کرتے ہوئے یہ ہرگز نہ دیکھیں کہ ہم نے صرف مسلمان کی ہی مدد کرنا ہے بے شک یہ افضل ہے لیکن کسی بھی مذہب رنگ نسل کی مدد کرنے میں پیچھے نہیں ہٹنا‘ حتی کہ جانوروں کو بھی اگر تکلیف میں دیکھیں تو ان کی خدا ترسی میں فوراً مدد کو پہنچ جائیں اور یہ واقعی میں دین اسلام کی واضح تشریح ہے قدرت ہمیں ہمیشہ دوسروں کی تکالیف کو رفع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔