خوبصورت گلی اور کچا راستہ

ہالینڈ کے ٹرانزٹ لاؤنج میں لائبریری کا بورڈ پڑھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی اب تو پاکستان میں خاص طور پر وہ زمانہ چل رہا ہے کہ لائبریریاں سمٹتی ہی جارہی ہیں نئی نسل تو یوٹیوب اورانٹرنیٹ کو ہی  لائبریری کا متبادل سمجھنے لگی ہے  یہ کیسے پیارے ملک ہیں کہ مسافر کچھ دیر یا کچھ گھنٹوں کے لئے اس وسیع ہال میں قیام کرتے ہیں تاکہ اگلی منزل کا جہاز پکڑ سکیں تو ایک نہیں دو دو کیبن کتابوں سے بھرے ہوئے ہیں میں دل میں سوچ رہی ہوں نہ جانے بک پڑھنے کے کتنے یورو مانگیں گے‘ کیوں کہ میرے پرس میں تو ریال ہیں میری منز ل تو سعودی عرب ہے جہاں میں نے عمرہ کی ادائیگی کیلئے پہنچنا ہے اگر یورو مانگ لئے تو میں کیا کرونگی‘ مایوس ہو جاؤنگی دل میں کہا کوئی بات نہیں صرف کتابوں کو ہاتھ ہی لگا لینا‘ یقین کریں کتابوں کو ہاتھ لگانے والی بات یوں ہی نہیں کررہی‘ کتاب کے شوقین افراد کو علم ہے کہ کتاب کو ہاتھ سے چھو کر دیکھنے کا کیسا ذائقہ ہوتا ہے جیسے آپ نے بھری گرم دوپہر میں ٹھنڈے پانی کو اپنی زبان پر محسوس کیا ہو‘ دل کی اس تسلی کے ساتھ ہی میں نے اپنے شوز دوبارہ پہن لئے جو میں نے کچھ دیر کیلئے اپنے پیروں کو آرام پہنچانے کی غرض سے اتار رکھے ہیں اپنے دستی سامان کو نیم دراز آنکھیں بند کئے ہوئے بیٹے کے پاس چھوڑ دیا اور اسکو بتا دیا سامنے لائبریری تک ہو کے آرہی ہوں‘ اس نے ہلکا سا احتجاج کیا، امی یہاں بھی آپ کو لائبریری مل گئی ہے میں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے سامنے روشن الفاظ میں لائبریری لکھے ہوئے کیبن کی طرف قدم بڑھائے‘ چھوٹا گول سا کیبن بنا ہوا ہے جس کے اندر شلیف بنے ہوئے ہیں اور یہ سارے شیلف گولائی میں چاروں طرف ہے اور باہر سے بھی ایسے ہی ہیں بیرونی دیواریں البتہ شیشے سے ڈھکی ہوئی ہیں ڈھکنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہوگا کہ کتاب کو کوئی چوری کرلے گا کیونکہ یہاں ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے یہاں تو سب کتاب سے بہت محبت کرتے ہیں اب میری دوسری حیرت جو مجھے شاید ششدرہ کر گئی لائبریری کے دونوں گول کیبن کسی بھی لائبریرین یا سیکورٹی کے بغیر ہیں آپ خود ہی شیلف سے اپنی پسند کی کتاب اٹھالیں کھڑے ہو کر ورق گردانی کریں یا کرسی پر بیٹھ کر پڑھتے جائیں آپ کی مرضی! اسی حیرت اورخوشی کے عالم میں کئی کتابوں کو دیکھ جو بہترین پرنٹنگ اور اعلیٰ کوالٹی اور معیار کی گواہی دے رہی ہیں اور مجھے ہر کتاب اپنی جاذب نظری سے اپنی طرف نظریں جمائے رکھنے پر مجبور کر رہی ہے میں نے جلدی جلدی ان کے ٹائٹل پڑھنے شروع کئے تاکہ کوئی ایسی کتاب جلدی سے منتخب کروں کہ کچھ دیر اس ٹرانزٹ لاؤنج سے فائدہ اٹھالوں یہ تو مجھے احساس ہوگیا ہے کہ یہاں کتاب ایشو نہیں ہو سکتی بس مسافر کے وقت کے بہترین مصرف کیلئے یہ قاری کی توجہ کی منتظر ہے میں سوچ رہی ہوں کہ شاید یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی واحد لائبریری ہوگی کیونکہ دنیا کے بڑے بڑے ائرپورٹس کے خوبصورت ٹرانزٹ لاؤنجز میں کئی کئی گھنٹے میں نے بتائے ہوئے ہیں وہاں ایسا کچھ بھی نہیں کبھی دیکھا اکادکا لوگ میری طرح کے شوقین ان کیبن میں کتابوں کو چھو کر الٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہیں کچھ لوگ کتاب کو ہاتھ میں لے کر اس کے صفحے پلٹ کر پڑھ بھی رہے ہیں اور پھر اسی خاموشی اور سلیقے سے واپس رکھتے جارہے ہیں اگرچہ کتاب کے شوقین افراد یہاں بہت کم نظر آئے اور اسکی وجوہات یقینا وقت کی کمی‘ سفر کی مشکلات‘ ہاتھ میں بے شمار سامان اور اسکی حفاظت کے پیش نظر اس پر نظر رکھنا ہی ہے‘ میں نے کتابوں پر نظر ڈالی زیادہ ترکتب ڈچ زبان میں ہیں ڈچ وہ زبان ہے جو ہالینڈ یا نیدرلینڈ کی ماں بولی ہے‘ کچھ کتب ایسی بھی ہیں جو ہالینڈ کی تاریخ پر لکھی گئی ہیں کچھ کتب میں جغرافیہ اور زیادہ تر آرٹ کی کتابیں ہیں اور یہ کتابیں تمام  انگلش زبان میں لکھی گئی ہیں میں نے آرٹ کی موٹی سی ایک کتاب اٹھائی قریب پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی اور ورق گردانی کرنے لگی اس کتاب میں ہالینڈ میں بننے والی اشیاء کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے اور ساتھ ہی رنگین تصاویر ان اشیاء کی موجود ہیں جو یہاں کی خاص پروڈکشن میں شمار ہوتی ہیں میں نے دیکھا اور حیران بھی ہوئی کہ ہالینڈ کے مٹی کے برتن اور وہ بھی تمام نیلے رنگ کے دنیابھر میں بہت مشہور ہیں اور دنیا کے بیشتر ممالک میں پسند کئے جاتے ہیں آپ آنکھیں بند کرکے ہمارے پیارے شہر ملتان کے نیلے برتن جو مٹی سے اور ہاتھ سے بنے ہوئے ہوتے ہیں ان ہی کو ذہن میں لے آئیں مجھے لگا میں ملتان کی پروڈکشن کے بارے میں پڑھ رہی ہوں لیکن جو بات فرق تھی وہ ان برتنوں کے ڈیزائن ہیں جو شاید ہمارے ملتان میں رہنے والے بھائی بغیر تربیت حاصل کئے کبھی بھی نہ بنا سکیں وہ صرف مخصوص گل کاری کرکے ہی اپنے ہر قسم کے برتن بناتے ہیں لیکن ان کتابوں میں آرٹسٹ کے آئیڈیاز اور ڈیزائن حیرت انگیز ہیں ایک تصویر میں خوبصورت گلدان دیکھا جس پر کسی خوبصورت گلی کی پینٹنگ بنی ہوئی ہے درختوں کے چھنڈ بنائے گئے ہیں درمیان میں ایک کچا راستہ نظر آرہا ہے کچھ سبزہ ہے یہ سب اتنا حقیقی ہے جیسے میں اس گلی کے پاس کھڑی ہو کر یہ سارا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں ایک عجیب سا دلنشین منظر آرٹسٹ نے ایک گلدان میں اس طرح سمویا ہے کہ خریدنے والا منہ مانگی قیمت دیئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا میں نے شدت سے یہ بات سوچی کہ فن تو ہمارے ملتان کے بہن بھائیوں میں بدرجہ اتم موجود ہے لیکن تعلیم اورتربیت کی کمی کی وجہ سے وہ خیال اور آئیڈیا ان کے ذہن میں نہیں آسکتا یا پھر وہ یہ نہیں جانتے کہ برتنوں پر مصوری کیسے کی جاتی ہے کتاب کے ورق الٹتی جاتی ہوں اور ہالینڈ کے آرٹ اور پروڈکشن سے آشنائی ہوتی جارہی ہے۔