موجودہ وقت میں مجسٹریسی نظام کی غیر فعالیت سے ان گنت مسائل نے جنم لیا ہے، پہلے پہل برصغیر میں ایک ایسے سسٹم کی ضرورت محسوس کی گئی کہ مٹھی بھر افسران کے ذریعے پورے برصغیر کو آسانی و کامیابی کے ساتھ کنٹرول کیا جاسکے جس کی روشنی میں ایگزیکٹیو مجسٹریسی نظام رائج کیا گیا، اس نظام میں بہت سی خامیاں ضرور ہوں گی لیکشن عشروں کی آزمائشوں نے اسے آزمودہ نظام بنادیا۔ کہا جاتا ہے کہ صوبے کی سطح پر اگر ایگزیکٹیو مجسٹریسی کا نظام بحال کیا جائے تو گرانفروشی، ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی صورتحال میں بہت حد تک بہتر آسکتی ہے۔مجسٹریٹ کا کام صرف قیمتیں چیک کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ گڈ گورننس اور حکومت کی کارکردگی کو عوامی سطح تک پہنچانے میں ایک اہم پل کا کردار ادا کر سکے گا۔ موجودہ دور میں جہاں ملک میں ایک طرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے شہریوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے وہی مصنوعی طریقے سے پیدا کی گئی مہنگائی کو اگر قانون کے دائرے میں رہ کر حل کرنے کا سوچا جارہا ہے تو مجسٹریسی نظام اس کیلئے بہت ضروری ہے۔ تاہم راتوں رات مجسٹریٹ سسٹم بحال کرنے سے بہتری کے عناصر نظر نہیں آئینگے کیونکہ اس سسٹم کے خاتمہ سے کافی مسائل پیدا ہوئے جبکہ ڈی سی کا کردار بہت مضبوط تھا وہ نہ صرف ایک منتظم ہوا کرتا تھا بلکہ ریونیو کلیکٹر کے فرائض بھی انجام دیا کرتا تھا پھربحیثیت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس انتظامی اختیارات بھی ہوا کرتے تھے یوں امن و امان کنٹرول کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی تھی۔
موجودہ دور میں امن و امان کی صورت حال کی بہتری شہری مسائل کے حل کیلئے اب مجسٹریسی نظام کو بحال کرنا ضروری ہے ڈی سی کو بااختیار بنانا ضروری ہے۔ گورننس کنٹرول کرنے کیلئے بھی مجسٹریسی رول انتہائی ضروری ہے اگر مجسٹریٹ کے پاس عدالتی اختیارات تھے تو آئین اور قانون کے مطابق ہی تھے۔ مجسٹریسی سٹم کی بدولت اوورسائٹ کا نظام موجود تھا جب یہ نظام ختم ہوا تو گورننس خراب ہوتی چلی گئی ظاہر ہے کہ جب قانون اور طاقت کا استعمال ٹھیک طریقہ سے نہ ہو تو گورننس خراب ہوتی جاتی ہے چنانچہ آج مجسٹریٹس کا ہونا ضروری ہے گورننس کی مضبوطی کیلئے یہ نظام ہونا چاہئے۔سابقہ ادوار میں جب مجسٹریسی نظام نافذ العمل تھا تو اس کے دو بڑے فائدے تھے۔یہ نظام جہاں ایک جانب تو مجسٹرٹ عدالتوں میں بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے تھے تو وہی دوسری جانب انتظامی معاملات میں بھی اہم کردار ادا کیا کرتے تھے۔ جہاں جہاں کا روائی کے دوران امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا تو پولیس مجسٹریٹ کے ساتھ ساتھ رہتی اور پولیس اس کی ہدایات پر عملدرآمد کی پابند ہوا کرتی تھی۔ یہ نظام ایک پوراضلعی نظام کوواضح کیا کرتا تھا جبکہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوتے تھے پھرسی آر پی کے تحت تھانہ مجسٹریٹ تھے یہ افسران عدالتی اختیارات کے معاملہ میں ہائی کورٹ کو جواب دہ تھے جبکہ انتظامی اختیارات کے معاملہ میں ڈپٹی کمشنر کے سامنے پابند تھے۔
ڈپٹی کمشنر پھر بھی ان سے پوچھ گچھ کر سکتا تھا آپکے تھانے کی حدود میں بدامنی کیوں ہے؟ گویا ایک مکمل نظام تھا اب صرف ایک پہیہ چلانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ پاکستان کی اگر موجودہ صورتحال دیکھی جائے تو اگر اس کو فوری بحال کیا جائے تو اس سے موجودہ نظام میں کچھ نہ کچھ بہتری آسکتی ہے۔ آج اگر بدامنی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرنا مقصود ہے تو سب سے پہلے نچلی سطح پر حکومتی عملداری کی بحالی ضروری ہے اور اس کیلئے مجسٹریسی نظام کواب بحال کرنا ہی پڑے گا۔لہٰذا مجسٹریسی نظام کی بحالی ضروری ہے تاہم شرط یہ ہے کہ پھر متعلقہ افسران کو ضروری اختیارات بھی دیئے جائیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ چاروں صوبے اور وفاق اتفاق رائے کے بعد متعلقہ قوانین میں ترمیم کر کے اس سسٹم کو بحال کر کے گورننس کی بہتری کیلئے اقدامات میں تیزی لائیں۔ دوسری جانب مجسٹریسی نظام کو بحال کرنے کیلئے فوری طورمختلف سرکاری محکموں میں انتظامی اور منسٹریئل لیول پر کام کرنے والے تجربہ کار افراد اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد جن میں آفس اسسٹنٹ، کمپیوٹر آپریٹرز اور سپرنٹنڈنٹس جیسے کیڈرز شامل ہیں کو بھی اس نظام کا حصہ بنایا جانا چاہئے اور نئی بھرتی سے پہلے اس پول سے تعینات کر کے ان کو چند ماہ کی ٹریننگ دیگر کام پر لگا دیں تا کہ وہ اپنے سرکاری تجربے اور انتظامی تجربے کو بروئے کار لا کر ڈپٹی کمشنر اور ضلعی انتظامیہ کے ہمراہ اپنی تعیناتی کے بعد پرائس کنٹرولز سمیت دیگر ضلعی انتظامی امور میں بھی ان کی مدد کر سکیں۔
اس نظام کی افادیت ایک ایسے وقت میں زیادہ نمایاں ہوتی جا رہی ہے جب کہ ملک کے اقتصادی اعشاریوں میں استحکام کے باوجود عام شہری کیلئے گرانی کے ہاتھوں دو وقت کی روٹی پوری کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اس آزمودہ نظام کی بساط جنرل مشرف کے دور میں متعارف کرائے جانے والے بلدیاتی نظام میں لپیٹی گئی اس نظام کے خدوخال ترتیب دینے والوں نے زمینی حقائق کو مد نظر رکھا نہ اس سسٹم کی افادیت اور نچلی سطح تک رسائی کا درست ادراک کیا بعد میں یکے بعد دیگر ے بر سر اقتدار آنے والوں نے بھی اس سسٹم کی بحالی پر غور نہیں کیا۔ اب اگر چاروں صوبے اس حقیقت کا احساس کرتے ہوئے سسٹم کی بحالی کیلئے متفق ہیں تو وفاق کو فوراً اس سے جڑی رکاوٹیں دور کرتے ہوئے اقدامات اٹھانے چاہئیں تا کہ مارکیٹ کنٹرول ہونے پر لوگوں کو تبدیلی کا خوشگوار احساس ہو اور ان کی مشکلات میں کمی آسکے۔