یا دوں کے چراغ 

اگر میں کسی نو جوان کو بتا دو ں کہ جن دنوں ڈبگری گارڈن میں ہمارا دفتر تھا ان دنوں یہاں ایک بھی ڈاکٹر نہیں تھا، ایک بھی لیبارٹری نہیں تھی تو آج کا نو جوان میری بات پر یقین نہیں کرے گا کہ ڈاکٹر اورلیبارٹری کے بغیر کیسے ڈبگری گارڈن ہو سکتا ہے! لیکن ایسا ہی تھا جن دنوں یہاں میرا دفتر تھا ان دنوں یہاں ہو کا عا لم تھا، باڑے کی بسیں یہاں سے گزرتی تھیں انہی بسوں کی وجہ سے ڈبگری چوک کی رونق تھی، میں یوسف شہزاد کے ہمراہ ہر روز چوک یاد گار سے پیدل آتا تھا اور چھٹی کے بعد ہم پیدل ہی جا تے تھے کبھی ہم چڑدیکو بان اور پیپل منڈی سے قصہ خوا نی کا راستہ اختیار کر تے اور کبھی قصہ خوا نی کو چھوڑ کر بائیں ہاتھ کی گلیوں سے ہو کر شعبہ بازار کی طرف نکلتے ان گلیوں میں پشاور شہر کا قدیم رنگ ملتا تھا، ہم اس رنگ کے رسیا تھے، سر دیوں میں چکن سوپ اور گر میوں میں پشاور ی قلفی سے لطف اندوز ہو ا کر تے تھے، ہمارا دفتر محکمہ اطلا عات کا دفتر تھا یہاں ہمارے افسروں میں قا ضی سرور اور عنا یت اللہ ریاض بھی تھے احسان اللہ خا ن، حفیظ الکو زی اور عظیم آفریدی بھی تھے، اہم شخصیات کا دورہ پشاور سرپر ہو تو اسلام آباد سے یو نس سیٹھی اور فرحت اللہ بابر بھی آیا کر تے تھے۔ 

دفتر کے ساتھیوں میں نا صر علی سیّد، عالمزیب خٹک، محمد اسلا م ارما نی اور اعجاز احمد زاہد کو ہم کبھی بھلا نہ پائینگے،پہلے مو لانا کو ثر نیا زی وزیر اطلا عات تھے پھر حنیف خان وزیر اطلا عات بنے، دفتر سے رسائل اور جرائد بھی شائع ہوئے تھے، اباسین، جمہور اسلا م اور کار واں یہاں سے نکلتے تھے، ماہ نو لا ہور سے شائع ہوتا تھا، دفتر میں دن بھر ادیبوں اور شاعروں کا آنا جا نا لگا رہتا تھا، امیر حمزہ شنواری، ابو الکیف کیفی سرحدی، عبد الکا فی ادیب، عبد الستار، عارف خٹک، سید رسول رسا، خیرالبشر نوید، طاہر کلا چوی اور دوسرے نا مور لکھاری تشریف لا تے تو ہم خو شی سے سر شار ہوتے، کیپٹن احسان دانش اور اقتدار علی مظہر صوبائی محکمہ اطلا عات کے حکام میں سے بہت پڑھے لکھے دانشور تھے، ان کے ساتھ ہمارا خو ش گوار رابطہ رہتا تھا وزارت اطلا عات میں سنٹرل سپیرئیر سروس سے آنے والے دو آفیسر اکرام اللہ جان اور شاہ زمان خا ن بھی اسی اثنا ء میں پو سٹنگ پرپشاور آگئے ان کے ساتھ کا م کرنے کا تجربہ بھی یا دگار رہا۔

 والٹن اکیڈیمی لا ہور کے کا من کورس سے آنے والے آفیسروں کا یہ کمال ہوتا ہے کہ وہ اپنے خا ندان کے پکے نمائندے ہوتے ہیں، کورس کی کوئی تر بیت ان میں کا من نہیں ہوتی، گھر کی عادتیں نہیں چھوٹتیں، بچپن اور لڑکپن کی عادتوں سے چھٹکارا نہیں ملتا سابق چیف سکرٹری عبداللہ صاحب سے ایک بار پوچھا گیا اکیڈیمی سے آنے والے آفیسروں  کا ایک خاص مزاج کیوں ہوتاہے، انہوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ بعض عادتیں مورثی ہوتی ہیں اکیڈیمی ان عادتوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، ہمارے دفترمیں قبائلی ملک اور عما ئدین بھی تشریف لا تے تھے،  قبائلی علا قوں اور سر حدی ریا ستوں کے ادیبوں، شاعروں اور دانشور وں کے ذریعے نظر یہ پاکستان کے پیغام کو پھیلا نا تھا۔

 علامہ اقبال، قائد اعظم اور دیگر بانیان پا کستان کے افکار کی ترویج کے ساتھ حکومت وقت کی طرف سے دی گئی مراعات اور تر قیا تی سکیموں کا بھی احا طہ کرنا تھا، ہمارے دفتر میں قبائلی جر گوں کے انتظام و انصرام میں ہم بہت فعال کر دار ادا کر تے تھے، یہ دفتر اُس وقت یہاں سے ما ل روڈ منتقل ہو ا جب ہمارے دفتر کے پہلو میں پہلی کلینکل لیبارٹری قائم ہوئی، آج ہمارے دفتر کی عمارت میں بھی کلینکل لیبارٹری کا م کر رہی ہے، آج ڈبگری گارڈن ایک میڈیکل سٹی کی  صورت  میں موجودہے، تینوں طرف کی سڑکیں گاڑیوں کے ہجوم میں گم ہو گئی ہیں، یا دوں کے چراغ جلتے ہیں تو نصف صدی پہلے کا ڈبگری گارڈن ذہن کی سکرین پر آجا تا ہے۔