ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ اعتماد اور دکھ درد سمجھنے کا ہے اس لئے یہ بہت پائیدار رشتہ ہوتا ہے اور شاید ہی کوئی مریض اس ڈاکٹر کو بھول جائے جس نے اس کو ایک مہلک بیماری سے بچاؤ میں مدد دی ہو اور اس کا علاج کیا ہو۔ انسانی جان سے زیادہ قیمتی شاید ہی کوئی چیز ہو اس لئے تو ڈاکٹر کی قدر ایک بیمار شخص ہی جانتا ہے کہ جسے جان کا خطرہ لاحق ہو۔ ایسے میں اگر اسے کوئی ایسا ڈاکٹر مل جائے جو اس کا علاج نہ صرف دلجمعی اور دلچسپی سے کرے بلکہ اس کے نتیجے میں اسے شفا بھی ملے تو ایسے مریض کیلئے وہ ڈاکٹر ایک ناقابل فراموش ہستی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ویسے ایک ڈاکٹر کو ہونا بھی اس طرح چاہئے کہ وہ مریض کے دکھ درد کو دل کی گہرائی سے محسوس کرے اور اس کی اس طرح دلجوئی اور حوصلہ افزائی کرے کہ مریض کی آدھی بیماری تو ڈاکٹر کی حوصلہ افزائی اور اچھے کلمات سے ہی ختم ہو۔ یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے ڈاکٹروں کی کمی نہیں۔اس حوالے سے دیکھا جائے توڈاکٹر ایس اے رضا کی وفات پشاور کا بہت بڑا سانحہ شمار ہو تا ہے آج سے نصف صدی پہلے پشاور میں ڈاکٹر ایس اے رضا اور ڈاکٹر الف خان کے دونام بڑے مشہور تھے۔
شعبہ بازار سے ڈبگری جا تے ہوئے لیڈی گرفتھ ہائی سکول کے سامنے ان کا شفا خا نہ تھا، صوبے کے دور دراز جگہوں سے پشاور آنے والے شہری بس میں سوار ہو کر اپنا کرایہ دیتے وقت کلینرسے کہتے تھے مجھے ڈاکٹر رضا کے ہسپتال جا نا ہے، خصو صاً بوڑھے مر د اور معمر خواتین ڈاکٹر رضا کے نام کو ہسپتال سے زیا دہ جا نتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر رضا اپنی مٹھا س بھری گفتگو اور دلنشین سلوک سے آدھا مر ض دوا تجویز کر نے سے پہلے دور کر دیتے تھے اور یہ علا ج کا سنہرا اصول ہے ڈاکٹر کو سب سے پہلے مریض کے دل میں جگہ بنانی چا ہئے۔ مریض کے سامنے اپنا اعتبار قائم کرنا چاہئے، اعتماد اور اعتبار کے ذریعے مریض کو باور کرایا جا تا ہے کہ تمہارا علا ج محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ محفوظ ہاتھوں میں ہو نے کا احساس مریض یا مریضہ کے آدھے مرض کو دور کر دیتا ہے۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کا واحد ہسپتال تھا، ڈاکٹر ایس اے رضا، ڈاکٹر ناصر الدین اعظم، ڈاکٹر الف خا ن، ڈاکٹر محب اللہ، ڈاکٹر اشفاق اور ڈاکٹر گردیزی اپنے اپنے شعبوں میں بڑے نا م گنے جا تے تھے۔ چند سال پہلے ڈاکٹر صاحب کے سامنے ایک ڈاکٹر کا ذکر ہوا کہ ہرروز اپنے کلینک میں 140مریض دیکھتے ہیں، ڈاکٹر صاحب نے پو چھا کتنے گھنٹے کا کلینک ہو تا ہے؟
بتا یا گیا کہ ڈھا ئی گھنٹے کا ہو تا ہے، انہوں نے پھر پوچھا 150منٹوں کو 140مریضوں میں تقسیم کرو تو ہر مریض کو کتنے منٹ ملتے ہیں؟حساب کر کے بتا یا گیا کہ ایک منٹ چار سکینڈ، یہ واقعہ سن کر ڈاکٹر رضا ہنس پڑے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا یہ ان کی عادت ہی نہیں تھی ڈاکٹر رضا کی مقبو لیت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ مریض کو وقت دیتے تھے ہر مریض یا مریضہ کو 20منٹ سے لیکر 30منٹ تک وقت دیا کر تے تھے۔ اس دوران مر ض کی پوری تاریخ معلو م کر تے اور مریض کو صحت یا بی کے لئے مفید مشوروں کیساتھ عمو می صحت کے حوالے سے آگا ہی اور ہدا یات بھی دیدیتے تھے۔ اس طرح مریض اور معا لج کا با ہمی رشتہ، تعلق اور اعتما د قائم ہو تا تھا اس لئے ڈاکٹر کا نا م ہسپتال سے زیادہ مشہور ہوتا تھا۔ گاؤں میں کوئی بڑی تقریب ہو، کھا نے پینے کا دور دورہ ہو۔
انواع و اقسام کے مشروبات اور ماکو لات کا ڈھیر لگا ہوا ہو ایسے میں لوگ ڈاکٹر رضا کا نا م لیکر ایک دوسرے کو بد پرہیزی سے منع کر تے تھے کیونکہ ڈاکٹر کی نصیحت اور کونسلنگ سے وہ لو گ مستفید ہوئے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ دوسرے لوگ بھی ان مشوروں سے مستفید ہوں جو ان کو ڈاکٹر ایس رضا نے دئیے تھے۔اُسی دور کا واقعہ ہے ایک بڑے قبیلے کا ملک ڈاکٹر رضا کے پا س آیا ڈاکٹر صاحب نے دوا تجویز کرنے سے پہلے ان کو سمجھا یا کہ تمہارا بلڈ پریشر معمول سے زیا دہ ہے تم کھا نے میں نمک کا استعمال نہ کرو، مریض نے کہا یہ تو بہت مشکل ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب بولے بلڈ پریشر تمہارا دشمن ہے پر ہیز کرنا ہو گا۔ ملک نے کہا ڈاکٹر صاحب ایسے بہت دشمن میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں مگر میں دشمن سے ڈر نے والا نہیں ہوں‘ڈاکٹر ایس رضا کی رحلت سے پشاور کا ایک زرین دور ختم ہو گیا ہے۔تاہم ایسی شخصیات ہمیشہ لوگوں کی ذہنوں اور دلوں میں زندہ رہتی ہیں۔