زیادہ وقت نہیں گزرا یہی کوئی تین سو سال سے یہ کہانی شروع ہوتی ہے جب تجارت کے نام پر سرسبز کینیڈا میں غاصبانہ قبضہ کی ظالم داستان شروع ہوتی ہے بالکل اسی طرح جیسے برصغیر پاک وہند میں شہنشاہ جہانگیر کے دور میں شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوؤں اور مسلمانوں کو غلامیوں کے اندھیروں میں دھکیلتی چلی گئی۔کینیڈا میں ایسا ہی ہوا۔ فر کے بدلے میں مصالحہ جات اور اسلحہ بیچنے والے وہی سفید چہرے اور وہی لوگ تھے جو ایشیا میں بھی کالونیاں بنانے میں سوفیصد کامیاب ہوتے تھے دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے کینیڈا کے وسیع وعریض میدانوں اور سمندروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا وہ دوست بن کر گھر کے اندر آگئے تھے اور پھر انکی نیت بدل گئی اور وہ دوست نما دشمن بن گئے انہوں نے قبائل کو اس طرح اپنی باتوں کے شیشے میں اتارا کہ وہ اپنے معصوم بچوں کو انکے بنائے ہوئے انگلش سکولوں میں بھجوانے پر راضی ہوگئے تاکہ انکے بچے تعلیم حاصل کرسکیں۔
یہ ایسے سکول تھے جہاں رات دن رہنا پڑتا تھا پہلے پہل تو قبائل اپنے بچوں کو رات دن رکھوانے پر راضی نہ تھے بعدازاں اور اپنے بڑوں کے کہنے پر راضی ہوگئے اور تیسرے درجے میں انکے بچے ان سے چھین کر لے جائے جانے لگے۔ ان ہاسٹل نما سکولوں میں قتل و غارت کا بازار گرم ہوگیا۔ بچوں کو اپنی مادری زبان بولنے پر مار پڑتی انکے بال کاٹ دیئے جاتے اس وقت کے اساتذہ جو مہذب بنانے کے فرائض انجام دے رہے تھے انہوں نے تعلیم کے نام پر ایسے گھناؤنے کھیل کھیلے کہ وہ ہزاروں بچے واپس کبھی گھروں کو واپس نہ آئے انکے ماں باپ انکے راستے دیکھتے دیکھتے زمین میں دفن ہوگئے صرف وہ بچے جو بھاگ کر اپنی جان بچانے کے قابل ہوئے ان میں سے بھی بیشتر برف کی یخ ہواؤں اور منفی80 کی سردی میں اپنی جانوں کو ریلوے پٹڑیوں اور راستوں میں قربان کرگئے۔ کچھ بچے گھروں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے لیکن انگریز اور فرانسیسی کینیڈا پر اس ناجائز قبضے سے اپنے قدم ایسے جما چکے تھے کہ قبائل یا فسٹ نیشن کے لوگ ان کا بال بھی بیکا نہ کر سکے انکی آواز انکے گھروں میں ہی دبا دی گئی یہ کمیونیکیشن کا زمانہ نہیں تھا اور پھر آج سے تین چار پانچ سال پہلے ان ہاسٹل کے قیام گاہوں والے سکولوں کے پارکوں اور باغوں سے قبریں برآمد ہونا شروع ہوئیں پہلے ایک قبرستان پھر دوسرا اور تیسرا اور دیکھتے ہی دیکھتے جہاں جہاں سکول قائم تھے قبرستانوں کی وسیع موت نگری نکلتی ہی گئی۔
اس مقصد کیلئے ایسے جدید ترین آلات استعمال کئے گئے جو زمین میں دفن ہڈیوں پر آتے ہی بول پڑتے تھے اور گزشتہ پانچ سالوں کے دوران انہی قبرستانوں اور اس میں موجود قبروں کو کینیڈا میں دریافت کیا گیا اور مارک کیا گیا قبائل کی اقوام سڑکوں پر نکل آئی۔ انکی چیخ وپکار اور اپنے پیارے بچوں کی اندوہناک اموات کی کہانیاں ان کو پاگل کرگئیں مجھے یاد ہے میں نے سینکڑوں سال پہلے کے انکے قبرستانوں کی کئی کہانیوں کو اپنے کالموں میں بیان کیا تھا۔اٹاوہ میں پارلیمنٹ اور وزیروں مشیروں کے گھروں کو لوہے کی تاروں سے سیل کر دیا گیا کہ ان پر کوئی حملہ نہ کرسکے‘ لیکن ان مظلوم لوگوں کی آہ وبکا کبھی ختم نہ ہوئی ان میں بے شمار وہ عورتیں اور مرد بھی شامل تھے جو ان سکولوں سے بھاگے ہوئے تھے اور اب انکی عمریں 90/80 سال کے قریب ہیں ان میں سے ایک شخص نے اپنی بائیوگرافی بھی لکھی ہوئی ہے لیکن زیادہ تر لوگ غریب اور ان پڑھ ہیں بس آنسوؤں کی ایک ایسی زبان ہے جو اپنی ان کہی سوگوار داستانوں سے انگریز استادوں کی المناک کہانیاں سناتی رہتی ہیں۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بچوں کے قبرستان کی دریافت پر آج سے دو سال پہلے ہی ہمدردی دکھ اور حیرت کا اظہار کیا تھا اور قبائل کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے ان قبرستان کو دڈھونڈنے میں پوری حکومتی مشینری استعمال کی تھی اور پھر کنیڈا کے عوام کے غم و غصہ کے سامنے یا پھر شاید مظلوم بچوں کے مردہ جسم بھی اتنے طاقت ور بن گئے تھے کہ مہذب دنیا کا پردہ چاک ہوتا گیابلکہ وہ اپنے لبادے میں خود ہی بے نقاب ہوگئے وزیراعظم نے اپنے طور پر قبائل سے معافی مانگی‘ قبائل کا دکھ اتنا زیادہ ہے کہ صرف معافی سے رستے زخم نہ بھرے اور ان کا احتجاج وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ہوتا چلا گیا اگرچہ جن لوگوں نے یہ گناہ کیا تھا وہ تو اپنے گناہوں کو لے کر درگور ہوگئے اور ان مرے ہوئے مظلوم بچوں کے ماں باپ دادا دادی اور رشتہ دار بھی دنیا میں نہیں رہیلیکن جو لوگ زندہ ہیں وہ اس قتل عام کو اپنے لئے قتل عام اور توہین آمیز قرار دیتے ہیں قارئین کو علم ہے جب مغرب پر اپنے کھاتے میں کوئی قتل عام آجائے یا دہشت گردی کا کوئی واقعہ ان سے100 فیصد منسوب ہو جائے تو وہ ایسی بیان بازی کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے کہ ان سے زیادہ امن پسند دنیا میں کوئی نہیں۔بچوں کے قبرستان کے منظرعام پر آنے کے بعدمغربی رہنماؤں کی سبکی ہوئی ہے اور وہ پریس کانفرنس میں اپنے باپ دادا کے اس قتل عام کا جواب دینے سے قاصر رہے۔ سچ ہے کہ قتل کبھی چھپایا نہیں جا سکتا اور ایک دن وہ بول پڑتا ہے۔