احتجاج رنگ لے آیا؟

جامعات ملازمین کے طویل احتجاج جس میں ابھی 21جولائی کو ملازمین اتحاد کے منتظمین کا بطور شدید ردعمل بنی گالا روانہ ہوتے ہوتے رہ جانا بھی شامل تھا کے بعد ہاؤس سبسڈی اور ریکوزیشن میں حکومت کی طرف سے کٹوتی کا حکم واپس لینے کی خبر ایک ایسے موقع پر جامعات میں پہنچ گئی جبکہ اسلامیہ کالج کے ملازمین جولائی کی تنخواہ نہ ملنے اور اس سے کٹوتی کے خدشے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور جامعہ زرعیہ اور جامعہ  ہندسیہ والے بھی اسی ہی سبب کی بناء پر احتجاج کیلئے پرتول رہے تھے‘ اگرچہ مذکورہ خبرجامعات انتظامیہ کیلئے اس وجہ سے کوئی خوشخبری نہیں تھی کہ وہ تو پہلے سے پوری تنخواہ الاؤنسز اور اسکے گزشتہ ایک سال کے بقایاجات کی ادائیگی کیلئے اپنے کنگال پن کا رونا رو رہے تھے تو بحال شدہ یعنی مکمل ادائیگی کیلئے مالی وسائل کہاں سے پیدا ہونگے؟ درحقیقت یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا اور رفتہ رفتہ گھمبیر ہوتا چلا گیا کہ مہنگائی نے اپنے تمام تر سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے اور تعلیمی بجٹ بڑھنے کی بجائے برائے نام رہ گیا یوں کورونا وباء نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور آمدنی کے اپنے ذرائع یکسر مفلوج ہو کر یونیورسٹیاں الاؤنسز اور پنشن اور اسکے بقایا جات کی ادائیگی تو کیا محض بیسک پے کی ابتر پوزیشن سے دوچار ہوگئیں۔

 پشاور کی پرانی یونیورسٹیوں میں اکلوتی درسگاہ صرف جامعہ پشاور تھی جو حکومتی تعاون اور آشیر باد سے کچھ زیادہ مفلوج ہونے سے بچ گئی اور ساتھ ہی اس کے قابل ہوگئی کہ تنخواہوں اور الاؤنسز کی بروقت ادائیگی اور بقایا جات کا بوجھ قدرے ہلکا کرنے کیساتھ مالیاتی اداروں کے قرضوں سے بھی فارغ  ہوگئی مگر شومئی قسمت کہ یہ کارکردگی بلکہ کامیابی اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی واضح بھاری اکثریت نے تسلیم نہیں کی بلکہ گزشتہ ایک سال کے دوران ملازمین نے جتنے مظاہروں دھرنوں اور جلسوں کا اہتمام کیا اس میں مخالفت،تنقید اور جذباتیت کا پارہ سب سے زیادہ جامعہ پشاور کے سربراہ کے حصے میں نمودار ہوا اب کہنے کی بات یہ ہے کہ ہاؤس سبسڈی اور ریکوزیشن میں ہونیوالی کٹوتی واپس لینے کا حکمنامہ یا ہدایت نامہ تو جاری ہوا مگر وہ جامعات جو پہلے سے اس استطاعت سے محروم تھیں کہ اپنے ملازمین کو بروقت پوری تنخواہ پنشن اور کٹوتی زدہ الاؤنسز فراہم کردیں وہ کیا کریں گی؟ کیونکہ ملازمین حضرات تو ابھی سے بلا روک ٹوک یہ استفسار کررہے ہیں کہ کٹوتیوں کے بقایا جات کب ملیں گے؟ جامعات کے کرتا دھرتا اگرچہ حکومتی گرانٹ کے انتظار کی پریشان کن حالت میں سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں کہ مالیاتی ابتری سے نکلنے کا کوئی راستہ ڈھونڈ نکالیں لیکن یہ تو تب ہوگا کہ یونیورسٹیوں کی ضروریات کے مطابق اعلیٰ تعلیمی بجٹ کا مختص ہونا ممکن ہو سکے آیا اس موجودہ حالت میں جبکہ ملک بھر کی لگ بھگ دو سو جامعات اور اعلیٰ تعلیمی ڈگری دینے والے دوسرے اداروں کیلئے محض 64 ارب سالانہ بجٹ مختص ہو یونیورسٹیوں کا چلنا اور اسکے ملازمین کا ان کی خواہش اور مرضی کے مطابق مطمئن ہوتا کیسے ممکن ہوگا؟

 جہاں تک پرانی جامعات  کے اپنے ذرائع آمدن کا تعلق ہے تو وہ بلاشبہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اب سوال یہ ہے کہ جب ایک وائس چانسلر اور ان کی ٹیم ملازمین کے احتجاج نعرہ بازی اور مطالبات سننے‘ برداشت کرنے اور پورے کرنے سے فارغ نہ ہوں اور تعلیمی بجٹ میں کٹوتی جبکہ گرانٹ کی عدم دستیابی کی صورتحال بدستور گھمبیر ہوتی چلی جارہی ہو تو ایسے میں طلباء کی بہتر تعلیم و تربیت‘ بہتر تعلیمی ماحول بنیادی سہولیات‘ تعلیمی وظائف اور مواقع فراہم کرنے پر توجہ کیسے مرکوز کی جا سکتی ہے؟ پشاور کی پرانی جامعات میں دیگر کی حالت میں جلد ہی کسی بہتری واقع ہونے کی توقع تو خیر نہیں رکھی جا سکتی البتہ مادر علمی کے سربراہ نے جامعہ کو مالیاتی طور پر مستحکم بنانے کیساتھ ساتھ طلباء کی تعداد میں اضافے اور یونیورسٹی کا درجہ بڑھانے کی جو کوششیں شروع کررکھی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مہم میں یونیورسٹی،اساتذہ اور دوسرے ملازمین کا کردار کیا اور حصہ کتنا ہوگا؟ ناامیدی کا اظہار مناسب نہیں ہوگا مگر حالات و واقعات اور ماضی سے یہ حقیقت واضح ہے کہ یہاں پر کوئی بھی کسی قسم کی مثبت تبدیلی اور اس کیلئے قدرے محنت اور قربانی دینے کے موڈ میں نظر نہیں آرہا لہٰذا یہ کوئی انہونی بات نہیں ہوگی کہ مادر علمی کے  موجودہ  سربراہ کی مایوسی یا سبکدوشی کی صورت میں پشاور یونیورسٹی ایک بار پھر بیسک پے کی قابل رحم حالت کی طرف لوٹ جائے۔