بیجنگ: چین نے سائنسی تحقیق کے شعبے میں امریکا کو پیچھے چھوڑ کر دنیا میں سرفہرست ملک کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔
جاپان کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی (این آئی ایس ٹی پی)کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا کہ سالانہ بنیادوں پر چین کی جانب سے سب سے زیادہ تعداد میں سائنسی تحقیقی مقالے جاری کئے جارہے ہیں جس کے بعد امریکا اور جرمنی دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں،یہ رپورٹ 2018سے 2020کے ڈیٹا پر مبنی تھی۔
رپورٹ میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ دنیا کے اہم ترین سائنسی جرائد میں حوالوں کیلئے چینی تحقیقی رپورٹس کو استعمال کرنے کی شرح 27.2فیصد ہے۔یہ ایسے جرائد ہیں جن کو سائنسی دنیا میں حوالوں کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک تحقیق کا حوالہ جتنی بار دیگر تحقیقی مقالوں میں دیا جائے گا اس کا اثر اتنا زیادہ ہوگا۔ان جرائد میں ایسی امریکی ریسرچ رپورٹس کی شرح 24.9 فیصد ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ چین کی جانب سے ہر سال اوسطا 4 لاکھ 7 ہزار 181 سائنسی مقالے شائع کیے جاتے ہیں جبکہ امریکی مقالوں کی تعداد 2 لاکھ 93 ہزار 434 ہے۔
چین کی جانب سے میٹریلز سائنس، کیمسٹری اور ریاضی پر زیادہ تحقیقی کام کیا جارہا ہے جبکہ امریکا میں کلینیکل میڈیسین، روزمرہ زندگی کی سائنس اور فزکس پر زیادہ تحقیقی کام ہورہا ہے۔
یہ رپورٹ اس وقت شائع ہوئی جب امریکی صدر جو بائیڈن نے چپس اینڈ سائنس ایکٹ پر دستخط کیے جس کے تحت آئندہ 10 برسوں میں 200 ارب ڈالرز سائنسی شعبوں پر خرچ کیے جائیں گے۔
رپورٹ تیار کرنے والے ماہرین نے کہا کہ امریکا کی جانب سے چین کے سائنسی کام کو غیرمعیاری قرار دیا جاتا ہے مگر بظاہر صورتحال بدل چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سائنسی مقالوں کی تعداد اور معیار کے حوالے سے چین دنیا کے ممتاز ترین ممالک میں سے ایک ہے، مگر حقیقی عالمی قائد بننے کے لیے اسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے والے تحقیقی کام کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔