اکتوبر کا مہینہ ہے لیکن دھوپ میں کافی چھبن ہے توپ کپی محل اور آیائے صوفیہ متصل عمارات ہیں جب ہم توپ کپی محل سے باہر آئے تو غیر منظم ہونے کی وجہ سے سب ساتھی اپنے اپنے زاویوں سے تصاویر بناتے رہے۔گائیڈکہیں اور ہمارا منیجر کہیں اور‘ کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے ہمارے ساتھ بے شمار ممالک کے سیاح موجود ہیں جو اپنے اپنے گائیڈ کی سربراہی میں واقعی سیاحت کا مقصد پورا کر رہے ہیں ہم پیدل ہی آیائے صوفیہ تک آئے جو شاید ایک فرلانگ سے بھی کم فاصلے پر ہے۔ میں نے آیائے صوفہ کی تاریخ پڑھی ہوئی ہے کہ جب سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا تو یہاں کے رہنے والے تمام عیسائی عوام نے سلطان کے خوف رعب اور دبدبے کی وجہ سے آیائے صوفیہ میں پناہ لے لی تھی آیائے صوفیہ پانچویں صدی عیسوی سے لے کر پندرہویں صدی عیسویں کے چھٹی دہائی تک عیسائیوں کا عبادت خانہ تھا سلطان محمد فاتح آیائے صوفیہ آیا اور عیسائی مردوں‘ خواتین اور بچوں سے مخاطب ہو کر اپنی لافانی تقریر میں ان سب کو جان مال اور ان کی عزتوں کی حفاظت کی ضمانت دی‘ اور ان کو استنبول میں رہنے کیلئے پوری مذہبی آزادی کے ساتھ پورے تعاون کا یقین دلایا جبکہ عیسائی خواتین اور بچے سمجھ رہے تھے کہ سلطان ہم سب کے قتل عام کا حکم دے گا۔
آیائے صوفیہ کی کہانی بڑی دلچسپ ہے کہا جاتا ہے کہ چوتھی صدی عیسوی میں بالکل اسی جگہ جہاں آیائے صوفیہ کی عمارت ہے لکڑی سے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے عبادت خانے بنے ہوئے تھے جنہیں آیائے صوفیہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا پھر کچھ عرصے کے بعد ان لکڑی کی بنی ہوئی عبادت گاہوں کو آگ لگ گئی اور یہ سب جل کر راکھ ہوگئیں‘ پانچویں صدی کے بالکل شروع کے سالوں میں اسکو ایک ہی عبادت گاہ بنانے کیلئے دوبارہ تعمیر کا کام شروع ہوا اور بڑے حیرت کی بات یہ ہے کہ اگلے سوسال تک یہ عبادت گاہ آیائے صوفیہ کے نام سے قائم رہی۔بادشاہوں کی جنگوں اور بغاوتوں کے دوران قسطنطنیہ کا تقریباً تمام شہر تباہ و برباد ہوا اور بے شمار تعمیرات بھی ضائع ہوگئیں جن میں آیائے صوفیہ بھی تھی۔ جب جسٹینان بادشاہ تخت پر بیٹھا اور اس نے آیائے صوفیہ کی بربادی کو سنجیدگی سے لیا اور دوبارہ سے اس پر خوبصورت عمارت بنانے کا حکم دیا ان وقتوں کے بادشاہوں کو اپنی دولت اور فوج پر بہت زعم ہوتا تھا ان کے پاس ہیرے جواہرات کے خزانے بھی بے شمار ہوتے تھے۔ آیائے صوفیہ کو ایسا ہی حیرت انگیز بنانے کیلئے کمربستہ ہوگیا۔اس زمانے کے بہترین معماروں اور اعلیٰ تعمیراتی سامان کو جمع کیا گیا اور بیس پچیس سال کے اندر ہی اپنے زمانے کے لحاظ سے جسٹینان واقعی میں حیرت انگیز عمارت کھڑی کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
بادشاہ نے اس کی جداگانہ تعمیر کو اپنے لئے عزت وآبرو کا مسئلہ سمجھ لیا تھا وہ خود اس، جب آیائے صوفیہ مکمل ہوگئی تووہ شاہی کروفر کے ساتھ اسکا افتتاح کرنے آیا تو اپنے وقت کی عبادت گاہ دیکھ کر تکبر میں مبتلا ہوگیا لیکن خدا کا کرنا دیکھئے کہ اس وقت کی نئی ایجاد اونچے اور وسیع گنبد چند سال بھی کھڑا نہ رہ سکے اور گر گئے۔ماہرین نے اس کے سائز وزن میں کمی کی اور اسکو دوبارہ کھڑا کیا لیکن کچھ سالوں کے بعد یہ سب پھر سے گر گئے اور پھر یہ ہر سال ہی کا معمول بن گیا گنبد گرتے رہے بنتے رہے لاکھوں روپے ان وقتوں کے اس پر خرچ ہوتے رہے جب بازنطینیوں کی حکومت آئی تو انہوں نے آیائے صوفیہ کو کھنڈر کی صورت میں ہی رہنے دیا یقینا ان کے کرنے کو اور بہت کام ہونگے۔اور پھر تاریخ کی آنکھ نے دیکھا کہ جب سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ فتح کرنے کے بعد اس شہر میں داخل ہوا تو اس نے اس عبادت گاہ کو ترکیہ کے مشہور ماہرین فن سے بنوانے کا حکم دیا۔ نقاشی کروائی‘ محرابیں بنوائیں جو خاص مسلمانوں کی عمارتوں کا طرز تعمیر سمجھا جاتا ہے عمارت کے چاروں کونوں پر ستون بنوائے ترکیہ کے مشہور زمانہ تعمیرات کے ماہرین اور بانی سنان نے اسکی دیواروں کو مضبوط کرنے کیلئے پشتے تعمیر کروائے اور اس کے بعد یہ عمارت نہ کبھی گری نہ خراب ہوئی‘ اگرچہ ہر مسلمان خلیفہ کے دور میں اس کی تزئین و آرائش جاری رہی فرق اتنا ہوا کہ اب آیائے صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کردیاگیا ہے۔
عبادت گاہ کے طورپر آیائے صوفیہ کی زندگی1700سال کے لگ بھگ ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد مصطفی کمال پاشا کے عہد میں اس تاریخی عمارت کو عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا آج ترکیہ میں یہ ایک یادگار عجائب گھر ہے جسکو دیکھنے عیسائی ہندو اور مسلمان اپنے اپنے ممالک سے دور دراز کا سفر کرتے ہیں۔شاید ہمارا سیاحتی گروپ اس لحاظ سے بدقسمت ہی تھا کہ اس مشہور زمانہ عمارت کے گیٹ پر کھڑا ہے عمارت کو تالا لگا ہے اور ہم اندر نہیں جا سکتے ہیں اور صاف ظاہر ہے ناقص منصوبہ بندی‘ بروقت میوزیم کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات اور چھٹیوں کے شیڈول سے لاعلمی کے باعث باوجود خواہش کے کوئی بھی اندر جا نہ سکا۔ فیصلہ اس بات پر ہوا کہ سیر کے دران ہی کسی اور وقت ہم دوبارہ آ ئینگے اور اسکو اندر سے دیکھیں گے میں نے کہیں پڑھا تھا کہ آیائے صوفیہ کے باہر کا سٹرکچر اس کے اندر کی خوبصورتی اور دبدبے کو ذرہ برابر بھی ظاہر نہیں کرتا جتنا کہ اندر جاکر اسکی تاریخ تزئین اوآرائش کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر سیاحتی ساتھی صرف گھومنے پھرنے آئے ہیں انہیں کسی تاریخ جغرافیہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اس لئے ان کی نظر میں یہ بہت ہی معمولی بات ہے اور اس سے بھی بڑھ کر دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم اسی سیاحت کے دوران دوسری مرتبہ آیائے صوفیہ آئے اور دوبارہ ہمارے منیجر صاحب اور گائیڈ صاحب اس کے وقت کے بارے میں لاعلم رہے۔آیائے صوفیہ کی دیواریں خوبصورت ہیں‘ گنبدوں میں روشنی اور ہوا کیلئے نفیس کھڑکیاں ہیں 100کے قریب ستون ہیں اور سیاحوں کیلئے ایسے ایسے نظارے اور تاریخ کے اسباق ہیں کہ گھنٹوں تک وہ آیائے صوفیہ میں گھومتے رہتے ہیں تاریخ کو کتابوں میں تو کھنگال لیا جاتا ہے لیکن جب ان ہی الفاظ کو، کتاب کے تاریخی صفحات کو آنکھوں سے سامنے دیکھا جاتا ہے تو حیرت اور دلچسپی اس کو اور بھی امیر بنادیتی ہے شاید زندگی موقع دے اور میں ترکی دوبارہ جاؤں اور اس تاریخی عمارت کو اندر سے دیکھ سکوں لیکن اس وقت تو ہمارے ٹورمنیجر کی کمزور منصوبہ بندی سے ہم اسکو دیکھنے سے محروم ہیں۔