پاک افغان تجارت

افغانستان کے حالات پڑوسی ممالک پر متنوع مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ بالخصوص مہاجرین کی آمد اورافغانستان میں خوراک کی قلت اور قحط کی تشویش ناک صورت حال ہے۔ ایسے میں سرحدات پر محفوظ آمدورفت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ پاک افغان سرحد قریباً 2679کلومیٹر پر محیط ہے۔صوبہ خیبر پختونخوا میں پاک افغان بارڈر کی کل لمبائی 1229کلومیٹر ہے۔پاک افغان سرحد کی لمبائی دیر پائیں میں 39کلومیٹر، باجوڑ میں 50،مہمند میں 69، خیبر میں 111، کرم میں 191، شمالی وزیرستان میں 183اور جنوبی وزیرستان کے ساتھ 94کلومیٹر ہے۔چترال کے ساتھ افغان سرحد کی لمبائی 493کلومیٹر ہے لیکن اس میں سے471کلومیٹر سرحد انتہائی بلندی پر واقع اور گلیشئیروں پر مبنی علاقوں سے گزرتی ہے۔ افغانستان کے لیے تجارتی مقصد کے لئے باضابطہ سرحدی راستے فعال ہیں جن میں خیبر پختونخوا میں طورخم (خیبر)، انگور اڈہ(جنوبی وزیرستان)، غلام خان (شمالی وزیرستان)اور خرلاچی (کرم)، اسی طرح بلوچستان میں چمن(قلعہ عبداللہ)اور بادینی قلعہ سیف اللہ شامل ہیں۔

صرف باجوڑ میں افغانستان کے ساتھ چھوٹے بڑے 26رستے تھے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی سرگرمیاں دونوں ممالک کیلئے اہم ہیں اس حوالے سے وقتاً فوقتاً حکومت کی طرف سے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ عرصے سے حکومت پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تجارت کے لئے کرنسی کی بجائے اشیاء کے تبادلے کے نظام بارٹر سسٹم کے تحت تجارت کے لئے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام سے نان ٹریڈ بیریئرز کا خاتمہ ہوجائے گا جبکہ پاکستان افغانستان کو چاول پھل اور دیگرکھانے پینے کی اشیا دیکر افغانستان سے بارٹر سسٹم سے ہم اپنی اضافی چیزیں دیکر اپنی ضروریات کی چیزیں افغانستان سے لے سکتے ہیں جس میں کرنسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ایک وقت تھا جب ممالک بارٹر سسٹم کے تحت ہی تجارت کرتے تھے اور اس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوتے تھے جبکہ ایران آج بھی ترکی سمیت کئی ممالککے ساتھ بارٹر سسٹم کے تحت کامیاب تجارت کر رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بینکنگ چینل کے قیام میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اوررابطوں کو بھی مضبوط بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

اس سے قبل ایک اور اقدام کے طور پرحکومت نے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت کے لیے ویزا پالیسی میں نرمی کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت افغانستان سے ٹرانسپورٹرز کو 6 ماہ کے ملٹی انٹری ویزے جاری کیے جا رہے ہیں، اس کے علاوہ کابینہ نے ہدایت بھی کی کہ آن لائن ویزا سسٹم میں ورک ویزا کیٹیگری کے تحت ذیلی قسم متعارف کروائی جائے، یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ابتدائی طور پر چھ ماہ میں ایک سے زیادہ ویزے جاری کیے جائیں گے اور وزارت داخلہ کو اس مدت میں ایک سال تک توسیع کا اختیار ہوگا۔ویزا درخواستوں کے ساتھ درکار دستاویزات میں درخواست دہندہ کی تصویر، پاسپورٹ، ٹرانسپورٹ کمپنی کی رجسٹریشن اور ملازمت کا خط شامل ہے، اجلاس میں ڈرائیور، ٹرانسپورٹرز، ہیلپر وغیرہ کے ویزوں کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان(ایس ای سی پی)اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سفارشی خطوط کی شرط سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔

 افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے یہ فیصلے کیے گئے ہیں اور ویزا پالیسی میں ترامیم کی گئی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت سے دونوں ممالک کے عوام کی زندگی بد ل سکتی ہے اور اس سے نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی فائدہ ہوگا۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ قواعد و ضوابط کے تحت ہو۔اگر باقاعدہ تجارت میں تیزی ہو اور اس سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو تو اس سے سمگلنگ جیسے منفی رجحانات کی حوصلہ شکنی ہوگی۔بد قسمتی سے مذکورہ بالا اٹھائے گئے اہم اقدامات کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت میں وہ تیزی نظر نہیں آرہی ہے جو متوقع تھی۔