لاہور: لیجنڈری گلوکارہ بلبل پاکستان نیرہ نور گزشتہ شب 72 عمر کی برس میں انتقال کر گئیں، وہ کچھ عرصہ سے علیل تھیں۔ نیرہ نور کی نماز جنازہ آج کراچی میں ادا کی جائے گی۔ ان کے معروف گانوں ملی نغموں اور غزلوں میں، تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں پیا، آج بازار میں پا بجولاں چلو، کہاں ہو تم چلے آؤ، اے عشق ہمیں برباد نہ کر اور وطن کی مٹی گواہ رہنا سمیت دیگر بہت سے شامل ہیں۔
نیرہ نور 1950 کی دہائی میں موجودہ ہندوستان کے آسام میں پیدا ہوئیں، انکا خاندان پیشہ ورانہ طور پر تاجر تھا جو امرتسر سے آسام کے شہر گوہاٹی میں آبسا تھا۔ نیرہ کے والد مسلم لیگ کے ایک فعال رکن تھے اور 1958میں یہ خاندان پاکستان کی طرف ہجرت کر آیا۔
نیرہ کہتی ہیں کہ بچپن میں وہ کملا اور کانن دیوی کے مذہبی گیتوں (بھجن)، ٹھمری، غزل اور بیگم اختر (اختری بائی فیض آبادی) سے بہت متاثر تھیں۔ نیرہ کا خاندان نہ تو فن موسیقی سے وابستہ تھا اور نہ ہی نیرہ نے موسیقی کے حوالے سے کوئی رسمی تعلیم حاصل کی۔
تاہم نیرہ کو دریافت کرنے کا سہرا پروفیسر اسرار کے سر ہے جنہوں نے 1968 میں نیرہ کو اسلامیہ کالج لاہور کے اپنے ہم جماعتوں اور اساتذہ کے لیے قومی کالج برائے فنون لاہور میں ایک عشائیے کے بعد گاتے سنا تھا۔
1971 میں نیرہ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے سلسلے وار کھیلوں کے لیے گیت گانے سے اپنے باقاعدہ فن کا آغاز کیا۔ تاہم بعد میں انہوں نے بہت سے نامور شعرا جیسے مرزا اسداللہ غالب، ناصر کاظمی، ابن انشاء اور فیض احمد فیض وغیرہ کے کلام نہایت دلکش انداز سے گائے ہیں جب کہ نیرہ نے دیگر مرد گلوکاروں جیسے کہ مہدی حسن، احمد رشدی و عالمگیر وغیرہ کے ساتھ دو گانے بھی گائے ہیں۔
نیرہ پاکستان محفل موسیقی میں تین سونے کے تمغے جیت چکی ہیں، ان کو بہترین پس پردہ فلمی گلوکارہ کا نگار اعزاز بھی عطا کیا گیا تھا۔ پاک و ہند میں غزل و شاعری کے دلدادہ لوگوں کے لیے نیرہ نے لاتعداد مشاعروں اور موسیقی کی محفلوں میں اپنی آواز سے شعروں کو زندگی بخشی ہے۔
بہزاد لکھنوی ریڈیو پاکستان کے ایک نامور شاعر، مکالمہ نویس، گیت کار اور مصنف ہیں شاید کہ ان کے بہترین گیتوں میں بہزاد لکھنوی کی یہ غزل ایک شاہکار ہے جس کے گانے پر نیرہ نے بے شمار داد تحسین وصول کی ہے۔ نیرہ ایک ماہر اور موسیقی میں یکتا گلوکارہ ہیں۔ ناصر کاظمی ان کے دلپسند شاعر تھے۔