تم ہم کو یاد رکھنا

مغرب چھٹیوں کے معاملے میں بڑا فیاض ہے کرسمس ہو‘ ایسٹر ہو‘ فیملی ڈے ہو یا کوئی بھی اہم دن ہو چھٹیوں کو اس طرح جوڑا جاتا ہے کہ جمعے سے شروع ہو اور پیر کے دن تک اختتام پذیر ہو اور منگل کو بالکل تازہ دم ہو کر سکولوں دفتروں میں جایا جا سکے‘یہاں کے لوگوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے جب ان کو یہ چھٹیاں ملتی ہیں‘ اسکی وجہ یہ ہے  ان ممالک کے ہر کام میں سخت محنت شامل ہے اور کام کے دوران کوئی حیل و حجت‘ غفلت اور سستی دکھانے کی قطعاًاجازت نہیں‘ اس دفعہ جو تین چھٹیاں اکٹھی آگئیں اور پھر گرمیوں کا موسم جو مغرب  میں میلوں اور ٹھیلوں کا موسم ہوتا ہے اور گرمیاں بھی ایسی کہ اب دور جاتی ہوئی نظرآرہی  ہے اگست کا مہینہ آتا ہی ہے اسلئے کہ جولائی میں آئی ہوئی معصوم اور کمزور سی گرمی کو خود ہی سہارا دے کر واپس لے جائے کبھی ایسا زمانہ بھی دیکھا ہے میں نے آج سے22-20 سال پہلے کہ ستمبر میں برف پڑتی تھی کینیڈا میں اور برف کے طوفان چار دن پانچ دن سے پہلے تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے لیکن آبادیوں کا بہاؤ اور حد سے زیادہ ہجوم ہمیشہ انسانی وسائل کو متاثر کرتے ہیں اب22سال بعد برف دسمبر کے مہینے تک کا فاصلہ طے کر چکی ہے اور دسمبر کی کرسمس منانے والے گورے امیگرنٹس کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جن کے گھروں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے حسین ترین اونچے لمبے درختوں کو کاٹا گیا اور سرسبز وشاداب جنگل ریت لکڑی سیمنٹ کی نظر ہوگئے لاکھوں لوگوں کی رہائش کیسے ممکن ہوتی ان سب سامان کے بغیر‘ اور نتیجہ یہ ہوا کہ ٹھنڈے برف موسم ایسے روٹھے کہ بس دور جاکر بیٹھ گئے مدتوں کے بعد کرسمس منانے والوں کو سفید کرسمس ملتی ہے ورنہ وہ بھی نئے سال کی آمد کا انتظار کرواتی ہے۔

 اب کہ تین چھٹیاں اکٹھی ہوئیں تو انتاریو کے شہر ملٹن میں اوپن میوزک کا پروگرام سجایا گیا میں کہیں کسی اور کے گھر میں مہمان تھی وہاں میزبانوں کا پروگرام میوزک کنسرٹ کا بنا تو مجھے بھی جانا پڑ گیا دراصل ریڈیو کی زندگی میں میوزک کے کنسرٹ ہماری جاب کا حصہ ہوتے تھے اور نامور فنکاروں کے ساتھ زندگی ایسی گزری کہ کنسرٹ میں کوئی چارم نہیں رہا۔ کئی کنسرٹس کو تو خود میں نے انتظامی طور پر نبھایا تھا لیکن جب گاڑی خوبصورت اور دلنشین سڑک پر دوڑ رہی ہے تو مجھے احساس ہوا کہ کینیڈا کتنا حسین ہے ہم ایسے علاقے سے گزر رہے ہیں جو کنٹری سائیڈ یعنی دیہات کا علاقہ کہلاتا ہے بڑے بڑے فارم ہاؤسز‘ خوابوں میں دکھائی دینے والے خوبصورت گھر‘ پورچوں میں کھڑی لمبی لمبی چمکیلی گاڑیاں‘ اور رم جھم برستی بارش‘ شاید ہمارے ناردرن ایریاز کے لوگ اس خوبصورتی کو جانتے ہونگے۔ آپ دور دراز رہتے ہیں یا قریب ترین‘ حکومت وقت آپ کی ایسے حفاظت کرتی ہے کہ بس حکومت کا اس ایک کام کے سوا کوئی اور کام نہیں ہے۔ جی پی ایس ایک ایسی ڈیوائس ہے جو راستہ بتاتی ہے‘ اور آپ کو بے دھڑک اس کے کہنے پر عمل کرنا ہے یہاں تک کہ وہ بنا دیتی ہے وہ سامنے آپ کی منزل ہے گاڑی پارک کرو اور جاؤ‘ کالے بادل دل میں وسوسے ڈال رہے ہیں کہ نہ جانے پاکستان کا نامی گرمی نام فاخر محمود اتنی بارش میں بھی اپنا کنسرٹ نبھا سکے گا وہاں جاکر دیکھا‘ اور ایسا دیکھا کہ میں تو دم بخود ہوگئی کینیڈا میں اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی اور صرف پاکستانی دیکھ کر حیرت زد ہ  رہ گئی چونکہ کنسٹرٹ اوپن پارک میں ہے تو ہر شخص اپنی اپنی لائی ہوئی کرسی پر بیٹھا ہے جو پہلے آیا وہ پہلے والی قطاریں بیٹھ گیا‘ جو دیر سے آرہے ہیں ان کے ہاتھوں میں بھی چھتریاں اور کرسیاں ہیں پاکستان کے لوگ یہاں ہیلو اور سلام سے بہت دور ہوتے ہیں یہاں تک کہ اپنی مسکراہٹ سے بھی اپنے ہم وطنوں کومحروم ہی رکھتے ہیں۔

 میں دیکھ رہی ہوں جوق درجوق خاندان اپنے چھوٹے بڑے بچوں کے ساتھ گاڑیاں پارک کرکے پیدل متعلقہ جگہوں تک آرہے ہیں مغربی لباس پہنے ہوئے بچوں سے فرفر انگریزی بولتے ہوئے میرے قریب سے نظریں ادھر ادھر گھما کر گزر رہے ہیں چہروں سے سفید پوشی نظر آرہی ہے لیکن انداز بے نیازانہ سے  مغربی ملک میں رہائش کا تفاخر بھی جھلک رہا ہے نہ جانے ہم دنیا میں اتنی مصنوعی زندگیاں کیوں گزارتے ہیں میں نے شدت سے یہ بات سوچی۔۔نماز مغرب کیلئے مائیکروفون پر اذان دی گئی دل کو اچھا لگا‘ نماز کا وقفہ ہوا۔ بارش کی گیلی زمین کی وجہ سے میں نے بھی کرسی پر ہی نماز پڑھی اور پھر فاخر اسٹیج پر آگیا ہاں وہی فاخر‘ اے جواں‘ اے جواں‘ جیت تیرا نشاں‘ اور تم ہم کو یاد رکھنا‘ کبھی دل سے نہ بھلانا‘ السلام و علیکم کہہ کر اپنا پروگرام شروع کیا اور لوگوں کی تالیوں اور جوش افزائش میں اپنے کئی مقبول نغمے سنا دیئے بارش کی آنکھ مچولی پورے کنسرٹ میں جاری رہی لیکن فاخر کو بھی اپنے سامعین اور ناظرین کی نفسیات پر پوری طرح حاوی ہونے کا فن آتاتھا اب فاخر عمر میں کچھ زیادہ ہوگیا ہے اس کا وزن بھی کچھ بڑھ گیا ہے لیکن جس انرجی سے اس نے اپنی لائیو پرفارمنس سے تمام پاکستانیوں کو توانا بنایا وہ بہت اچھی بات تھی اور سب سے بڑھ جو اس کنسرٹ کی خوبی تھی وہ یہ کہ ٹکٹ نہیں ہے کچھ امیر ترین تاجروں نے مل کر اپنی کمیونٹی کیلئے اس شو کو سجایا ہے کتنے ہی کھانے پینے کے سٹال لگائے گئے ہیں جو پاکستانیوں کے ہی ہیں اور ان کو حلال فوڈ کے نام پر مشہوری دی گئی ہے بس مغرب میں بیٹھ کر لوگ اپنے وطن سے آتے ہوئے خوبصورت فنکاروں کے میوزک شوز دیکھ کر اور حلال کھانے ڈھونڈ کر کھانے سے نہ صرف خوش باش ہوتے ہیں بلکہ جاتی ہوئی گرمیوں کو بھی بھرپور گلے لگاتے ہیں کہ اس کے بعد تو برف اور اس کے بنے ہوئے پہاڑوں کو دیکھ کر ہی سات آٹھ مہینے گزارنے ہوتے ہیں۔