بابری مسجد کے انہدام سے متعلق تمام مقدمات بند کرنے کا اعلان 

نئی دہلی:بھارتی سپریم کورٹ نے 1992 میں ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ریاست اتر پردیش اور دیگر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے تمام مقدمات بند کردئیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے 3 دہائیوں سے تعطل کا شکار ایودھیا تنازع کے آخری مقدمات کو یہ مشاہدہ کرتے ہوئے بند کر دیا کہ درخواست گزار اور مدعی علیہ دونوں انتقال کر چکے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ زمین کے تنازع کے بنیادی کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے جس نے توہین عدالت کی درخواست کو بے اثر بنا دیا ہے۔

بار اور بینچ پورٹل کے مطابق جسٹس سنجے کشن کول اور ابھے ایس اوکا کی بینچ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 2019 کے اس فیصلے کی روشنی میں یہ درخواست بے اثر ہو گئی ہے جس میں ہندو فریقین کو متنازع زمین کی ملکیت دی گئی ہے۔

بینچ نے انتقال کر جانے والے درخواست گزار کو عدالتی معاون سے تبدیل کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔اتر پردیش حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو بابری مسجد کی حفاظت کی ضمانت کے باوجود اسے دسمبر 1992 میں منہدم کر دیا گیا تھا۔

اس کے نتیجے میں یوپی حکومت کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلا، 2019 میں سپریم کورٹ نے اس متنازع مقام کو ہندو قوم پرستوں کے حوالے کر دیا تھا۔

ستمبر 2020 میں لکھن کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے سابق نائب وزیر اعظم ایل کے اڈوانی، سابق وزیر اعلی اتر پردیش کلیان سنگھ، بی جے پی لیڈر مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور کئی دیگر کو بابری مسجد کو مسمار کرنے کے مقدمے میں بری کر دیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ مسجد کے انہدام کا باعث بننے والی کسی بھی ملی بھگت کو ثابت کرنے کے لیے مرکزی تفتیشی بیورو(سی بی آئی) کوئی حتمی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔

خصوصی عدالت نے کہا کہ ایسا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ مسجد کو گرانے کا سبب کوئی سازش یا اشتعال انگیزی تھی۔