وطن عزیز پاکستان کو حالیہ دنوں طوفانی بارشوں کے نتیجے میں شدید سیلاب کا سامنا ہے۔سیلاب کے باعث وسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کے ”آہنی بھائی“چین نے ہمیشہ کی طرح آگے بڑھ کر اپنے پاکستانی بھائیوں بہنوں کی مدد کی ہے۔ چین کی جانب سے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پرنہ صرف دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا بلکہ عملًا اقدامات سے بھی چین پاک روایتی دوستی کو اُجاگر کیا گیا ہے جو آزمائش کی ہر گھڑی پر ہمیشہ پورا اتری ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری فریم ورک کے تحت چین کی جانب سے پاکستان کو 4ہزارخیمے، 50ہزارکمبل،50ہزار واٹر پروف تر پالیں اور دیگر سامان فراہم کیا گیا ہے۔ اس امداد کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے چین نے ہنگامی انسانی دوست امداد کی اضافی کھیپ بھی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں 25ہزار خیمے اور دیگر ہنگامی نوعیت کا امدادی سامان شامل ہے۔ اسی طرح پاکستان میں فعال چینی کاروباری اداروں نے بھی سیلاب زدگان کے لئے تقریباً71340امریکی ڈالر کی انسان دوست امداد فراہم کی ہے۔ چینی کمپنیاں مقامی لوگوں کو فوری اور براہ راست مدد پہنچانے کی کوشش کے طور پر تباہ شدہ سڑکوں کی مرمت کے لئے مشینوں کا بندوبست کررہی ہیں۔قبل ازیں پاکستان میں چینی سفارتخانے نے بلوچستان کے سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے صوبے کے امدادی کیمپوں میں مقیم 800 سے1000 خاندانوں کو اشیائے خوراک سمیت ان علاقوں میں 300 یونٹ سولرپینل بھی دئیے ہیں جہاں سیلاب کی وجہ سے بجلی کی فراہمی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ چین کی عالمی ترقیاتی تعاون تنظیم نے بھی پاکستان کی مدد کے لئے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔تنظیم نے ایک بیان میں کہا کہ چین اور پاکستان کے باہمی تعاون کی ایک دیرینہ روایت ہے۔ زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات اور کووڈ 19 و با جیسے چیلنجوں کے تناظر میں، فریقین ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے رہے ہیں اورمل کر مشکلات پر قابو پانے میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان چاروں موسموں کی تزویراتی تعاون پرمبنی شراکت داری اورگہری دوستی کا مظاہرہ ہوتا ہے ایک امریکی انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان میں قریباً 715000افراد سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ملک کے جی ڈی پی کا سالانہ نقصان تقریباً 1فیصد یعنی 1.7ارب ڈالر ہوتا ہے جو بہت بڑا نقصان ہے۔ سیلاب کے ذیلی اثرات کے نتیجے میں 2030تک پاکستان میں سالانہ 2.7ملین افراد دریائی سیلابوں سے متاثر ہو سکتے ہیں تاہم ملک میں جدید اور موثرارلی وارننگ سسٹم موجودنہ ہونے کی وجہ سے ملک کو بہت زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سیلابی خطرات سے متاثر شہروں میں سیلابی ریلوں سے ہونیواے نقصانات کو کم کرنے کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی نصب کرنے کی ضرورت ہے۔ماہرین کے مطابق ایک طویل مدت کی واٹر پالیسی اپ گریڈ یڈ ٹیکنالوجی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ معلومات کا تبادلہ پاکستان کو سیلابی پانی کی آفات سے نکلنے میں مدد کر سکتا ہے۔ابھی سے پیش بندی کرتے ہوئے آنے والے مون سون کیلئے ابھی انتظامات ضروری ہیں کہ سیلاب کی صورت میں لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا جا سکے جبکہ تمام ممکنہ مقامات پر حفاظتی بندھ باندھ کر سیلاب کے ممکنہ خدشے کے پیش نظر روک تھام کی جائے تاکہ آج ہم جس صورتحال سے دوچار ہیں اس کا سامنا نہ ہو۔