کیلیفورنیا کا موسم بہار

ہالی وڈ سٹوڈیوز میں جن سیٹس پر میں کھڑی ہوں وہ یورپ امریکہ اور مکسیکن شہروں پر مشتمل ہیں۔ کنالوں پر محیط رقبے پر چھوٹے چھوٹے شہر بنائے گئے ہیں اوروہاں کی ثقافت طرز زندگی کو لے کر گھر کیفے دوکانیں سڑکیں بنائی گئی ہیں۔جب فلم بناتی جاتی ہے تو کسی بھی شہر کی کہانی کے مطابق عکس بندی کی جاتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ مصنوعی سمندر مصنوعی آگ اور مصنوعی بارش کے طریقوں کو دیکھا ہے ہالی وڈ کی فلموں میں جو ہم سمندر دیکھتے ہیں۔بارش ایک دم برسنا شروع ہو جاتی ہے اور ایسی آگ لگتی ہے کہ بجھنے کا نام نہیں لیتی تو انہی مصنوعی ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے حتی کہ مصنوعی بادل اور مصنوعی دھوپ کا نظام بھی میں نے یہی انہیں سٹوڈیوز میں دیکھا۔مرڈر شی روٹ Murder she wrote ہمارے زمانے کی ٹی وی پر چلنے والی نہایت مقبول کہانی سیریز تھی۔ یہاں سٹوڈیوز میں اس کا سیٹ دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ لوکیشن میں باغات گھر اور خوبصورت  پھول کیاریاں موجود ہیں۔ ٹی وی شوز جو ہمارے ممالک میں بھی بہت مشہور ہوتے ان کے سٹیجز بھی یہاں موجود ہیں‘میرے ساتھ بے شمار سیاح گھوم پھر رہے ہیں۔

 بس نے پورے سٹوڈیوز کی سیر کروائی اور واپس اسی جگہ آ گئے جہاں ریستوران ہیں اور لوگ جو در جوق گھوم پھر کر سٹالز اور یونیورسل سٹوڈیوز کی مختلف خوبصورت جگہوں کو دیکھ رہے ہیں۔میں نے ہالی وڈ کے ستاروں کے ساتھ کچھ تصاویر بنائیں جو لوگوں کے درمیان ہی موجود ہیں اور گھوم پھر رہے ہیں اس وقت موبائل فون کی سہولت ابھی متعارف نہیں ہوئی تھی میرے پاس کیمرہ تھا جس میں فلم ڈالی جاتی تھی میں نے شاید32 تصاویر لے لی تھیں اس لئے  میں نے دوسری فلم کیمرے میں ڈالوائی تھی۔ ہم شام کو اپنے ہوٹل واپس آ گئے اگلے دن بروک ہرسٹ پر واقع ایک اسٹورمیں چلے گئے جس کا نام پک اینڈ سیو(Pick & Save) تھا۔ اس سٹورمیں وہ اشیاء بیچی جاتی ہیں جو بڑے بڑے سٹورز کسی وجہ سے ان چھوٹے سٹورز کو بھیج دیتے ہیں ظاہر ہے وہ بہت کم قیمت پر بھیجتے ہوں گے اس لئے سٹورز بھی اپنے گاہکوں کو نہایت کم قیمت پر یہ اشیاء فروخت کرتے ہیں۔کیلی فورنیا ویسے بھی امریکہ کے سستے شہروں یا ریاستوں میں شمار ہوتا ہے اشیاء کا معیار نہایت ہی اعلیٰ ہوتا ہے ایک چیز خریدو تو دوسری چیز مفت تحفے میں مل جاتی ہے۔

پک اینڈ سیو بھی نہایت بڑا ورائٹی سے بھرپور اور نہایت سستا سٹور تھا۔ لیکن میں مسلسل ڈالر کو پاکستانی روپوں سے ضرب دے کر حساب کتاب کر رہی ہوں تو مجھے ہر چیز ہزاروں روپے کی لگ رہی ہے۔ہمارے پاکستان کے موسم بہار کی طرح ہوا میں خوشبو تو نہیں لیکن کیلی فورنیا کا موسم بہاربھی نہایت دلکش ہوتا ہے ماحول بھی انتہائی صاف شفاف اور دل کو بہلانے والا ہے بہت صبح سویرے اور شام ہوتے ہی سردی محسوس ہوتی ہے لیکن دوپہر کو گرمی لگتی ہے اگرچہ فروری کا مہینہ ہے نہایت کھلی سڑکیں اور ان کے ارد گرد بڑے بڑے ایکڑوں پر بنے ہوئے شاپنگ سٹور لمبی اور جدیدگاڑیاں کیلی فورنیا کی پہچان ہیں۔ کمانا اتنا سستا کہ کوئی انسان شاید بھوکا نہیں رہ سکتا۔ جوسز‘شہد‘ مکھن‘ سبزیاں‘ فروٹ‘ زیتون کا تیل دودھ گوشت مرغی قیمہ غرض کونسی چیز ہے جو یہاں موجود نہیں اور ہر فرد کے دسترس اور اختیار میں نہیں ہے۔ نوکری حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ صرف زندگی کے ایک خاص مقصد کو حل کرنے کیلئے یہاں آئی ہوں۔ ورنہ نوکری بھی ضرور مل جاتی۔ 29 ڈالر کی اتنی چاکلٹیس اور ٹافیاں خریدیں کہ بکس بھر گیا کیلی فورنیا کے اس ہوٹل میں آج میری آخری رات ہے۔ کل ہم نے ائیرپورٹ جانا ہے۔جہاں سے پاکستان اسلام آباد کے لئے سفر کرنا ہے۔ اور کئی ٹرانزٹس سے گزرنا ہے۔ 

صبح ہوتی تو میری میزبان جو ہندوستان کی ہے اور میاں بیوی اس ہوٹل کو چلاتے ہیں انجونام ہے اسکا۔ انجو کو میں نے تحفہ کے طور پر ایک زرد سوئیٹر‘ پرفیوم‘ داستانے‘ پرس دیا، اسی طرح اس کے میاں  کو بھی سوئیٹر اور داستانے گفٹ کئے۔ شام  کو ہماری فلائیٹ ہے لیکن دوپہر کے شروع ہوتے ہی ہم ٹیکسی میں بیٹھ چکے تھے اس سے پہلے ہم سب نے کچھ تصاویر بنوائیں‘ وہی میاں بیوی ہمیں باہر گیٹ تک چھوڑنے آئے۔ہوٹل کا بل 500 امریکی ڈالر سے بھی کم بنا جبکہ ہم نے یہاں تقریباً13 دن گزارے ہیں کیلی فورنیا کا ائیرپورٹ اتنا بڑا ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے شہروں میں رہنے والے اپنے ذہن میں وہ وسعت نہیں سما سکتے۔نائن الیون کے بعد ائیرپورٹس پر چیکنگ بہت زیادہ ہے۔ ائیرپورٹس پر تلاشی کے دوران ہمیشہ میرے ہاتھوں میں پہنے ہوئے سونے کے کڑے ایک گہری کرخت آواز کی صورت میں بول پڑتے ہیں۔

نتیجتاً مجھے کڑی تلاشی سے گزارا گیا لیکن سینکڑوں سفر کرنے کے بعد اب میں چیکنگ سے پہلے ہی اپنے کڑلے اتار کر پرس میں رکھ لیتی ہوں۔ ہم کچھ جلدی ائیرپورٹ آئے تھے اس لئے بڑی فرصت میں تمام ان مراحل سے فارغ ہو گئے ہیں۔ جن سے ائیرپورٹ پر ہر مسافر کو گزرنا ہوتا ہے ہمارا گیٹ نمبر101 ہے سوچیں اس ائیرپورٹ سے کتنے زیادہ ملکوں اور شہروں کو فلائٹس جاتی ہیں کورین ائیرلائنز میں بیٹھتی ہوں اور حسب معمول ڈائری لکھ رہی ہوں اسی ڈائری کی مدد سے آپ تک بھی یہ تحریر کالم کی صورت میں پہنچاتی رہی ہوں۔ 10 گھنٹے کا فاصلہ جہاز طے کر چکا ہے لیکن ابھی ہماری منزل بہت دور ہے۔ جہاز کی سیٹیں بہت تنگ ہیں۔میں سوچ رہی ہوں اپنے کم وزن کے ساتھ میں اس سیٹ پر ہل جل بھی نہیں سکتی یقیناً زیادہ وزن رکھنے والے لوگ بہت ہی پریشان ہو رہے ہوں گے۔ جہاز کا سفر شاید ان لوگوں کے لئے شاندار تصور  ہے جس نے کبھی یہ سفر نہ کیا ہو اور اسی کی سواری کی حسرت رکھتا ہو لیکن یقین کریں کئی سال مسلسل جہازوں کے سفر کے بعد میرا یہ تجربہ ہے کہ جہاز کے سفر سے زیادہ تنگ کر دینے والا سفر دنیا میں کوئی نہیں ہے۔