ملکہ برطانیہ کا انتقال، کوہِ نور کی بھارت واپسی کا مطالبہ زور پکڑ گیا

 نئی دہلی: ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کے انتقال کی خبر پھیلتے ہی سوشل میڈیا پر بھارتی صارفین کی جانب سے کوہِ نور ہیرے کی بھارت واپسی کا مطالبہ کیا جانے لگا ہے۔

 سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھارت میں کوہِ نور ٹاپ ٹرینڈز کا حصہ بنا ہوا ہے۔بھارتی صارفین کا خیال ہے کہ ملکہ برطانیہ کے تاج میں نصب قیمتی کوہِ نوربھارت کو واپس ملنا چاہیے۔ 

سوشل میڈیا پر ہونے والی اس بحث کے دوران ایک چیز جو نمایاں ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ برطانیہ کے پاس بہت سی ایسی قیمتی چیزیں موجود ہیں جو نوآبادیاتی دور میں یا تو دوسرے ممالک سے چھینی گئیں یا لوٹی گئیں، ان میں سے چند قیمتی اشیا کی فہرست یہ ہے۔

 ملکہ کی بہت سی قیمتی چیزوں میں ایک گریٹ اسٹار آف افریقہ ڈائمنڈ واضح طور پر نمایاں ہے، یہ دنیا کا سب سے بڑا ہیرا ہے اور اس کا وزن تقریبا 530 کیرٹ اور مالیت تقریبا 400 ملین امریکی ڈالرز ہے۔

 ایک اندازے کے مطابق اس ڈائمنڈ کی کان کنی 1905 میں جنوبی افریقہ میں کی گئی تھی۔  افریقہ کے بہت سے مورخین اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس ڈائمنڈ کو کان کنی کے بعد ایڈورڈ ہفتم کو پیش کیا گیا تھا جبکہ بھارتی صارفین کا دعوی ہے کہ یہ ہیرا ہندوستان سے چوری کیا گیا یا پھر اسے برطانوی دورِ حکومت کے دوران لوٹا گیا۔

  ٹیپو سلطان 1799 میں جب انگریزوں سے جنگ ہار گئے تھے تو ان کی ایک قیمتی انگوٹھی مبینہ طور پر انگریزوں نے ان کی جسدِ خاکی سے لے لی تھی۔  کئی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ انگوٹھی برطانیہ میں ہونے والی نیلامی میں ایک نامعلوم فرد کو تقریبا 145000 برطانوی پانڈز میں فروخت ہوئی۔

 بھارتی صارفین کی جانب سے کوہِ نور کی بھارت واپسی کا مطالبہ کیا گیا تو  مصری کارکن اور ماہرِ آثار قدیمہ نے روزیٹا اسٹون کی مصر واپسی کا مطالبہ کر دیا۔  روزیٹا اسٹون اس وقت برٹش میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا ہوا ہے۔

 مصر کے بہت سے مقامی اخبارات کے مطابق ماہرینِ آثار قدیمہ کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ بات ثابت کر سکتے ہیں کہ روزیٹا اسٹون برطانوی حکومت  نے چوری کیا تھا۔ 

 روزیٹا اسٹون 196 قبلِ مسیح کا ہے اور مورخین کے مطابق یہ مشہور پتھر برطانیہ نے 1800 کی دہائی میں فرانس کے خلاف جنگ جیتنے کے بعد حاصل کیا تھا۔ 

بہت سی میڈیا رپورٹس اور تاریخی دستاویزات کے مطابق 1803 میں لارڈ ایلگن نے مبینہ طور پر یونان میں پارتھینن کی بوسیدہ دیواروں پر لگے ماربلز کو ہٹوایا اور وہاں سے لندن پہنچایا، یہی وجہ ہے کہ ان ماربلز کو ایلگن ماربلز کہا جاتا ہے۔

 1925 سے یونان اپنی اس انمول ملکیت کی برطانیہ سے واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن یہ ماربلز یعنی سنگِ مرمر آج بھی برٹش میوزیم میں موجود ہیں۔