حیرانگی اس وقت ہوئی جب ائرپورٹ لائبریری میں ”قارئین کے تاثرات“ نامی خوبصورت اور ضخیم سی ڈائری دیکھی‘ کتاب کو چاہنے والوں نے اپنے اپنے تاثرات چھوٹے بڑے پیراگرافس کی صورت اس ڈائری میں لکھے ہوئے تھے ٹرانزٹ کے دوران ہر ملک اور ہر شہر کے لوگ رکتے ہیں میں نے اچکتی ہوئی نظر ہر ایک تاثر پر دوڑائی اور اوراق پلٹتی رہی‘ ایسے دلچسپ پیرائے میں لائبریری کی افادیت اور حیرانگی کا اظہار کیا گیا تھا اتنا طویل وقت میرے پاس بھی نہیں تھا کہ میں ہر ایک تاثر کو نوٹ کرتی‘ البتہ ایک نوجوان لڑکے کے تاثرات پر میری نظر رک گئی نوجوان اس لئے کہ اس نے اپنی عمر بریکٹ میں لکھی ہوئی تھی‘ اس نے لکھا تھا آج میں ہالینڈ کے اس ٹرانزٹ لاؤنج میں بیٹھا ہوں اور انگلینڈ کیلئے اپنی فلائٹ کا انتظار کر رہا ہوں‘ میری شادی کو صرف دو مہینے ہوئے ہیں لیکن غم روزگار نے مجھے اپنے ملک میں ٹکنے نہیں دیا اور میں گھر سے چل پڑا ہوں‘نہ جانے ہم پھر کب ملیں گے‘ ٹرانزٹ لاؤنج کی اس لائبریری نے میرے وقت کو حسین تر بنادیا ہے‘ شکریہ ائرپورٹ انتظامیہ اپنا نام اور عمرو تاریخ درج تھی‘ زیادہ تر تاثرات مختلف زبانوں میں تھے فرنچ‘ انگریزی‘ ڈچ‘ ہندی رسم الخط تو میں پہنچانتی تھی لیکن بہت سے ایسے پیرائے بھی تھے جن کی زبان سمجھ نہیں آئی‘ میں نے انگلش زبان میں اپنا تاثر لکھا اور تعریف کی اس آئیڈیا کی جس نے مسافروں کی وقت گزاری کیلئے علم کی روشنی دینے کے بارے میں سوچا اور لکھا کہ کاش میرے پاس اپنی کتابیں موجود ہوتیں اور میں اس پیاری من موہنی لائبریری کے شیلفس میں ان کو سجا دیتی‘کینیڈا سے سعودی عرب اتنا ہی دور ہے جتنا پاکستان‘ لیکن یورپین ائر لائنز سے یہ سفر35/32 گھنٹے تک چلا جاتا ہے‘تقریباً24 گھنٹے کے بعد سعودی ائر لائنز میں اپنے بیٹے کے ساتھ میں بیٹھ چکی ہوں چونکہ میقات جہاز میں ہی آئے گا‘اس لئے میرے بیٹے نے اور میں نے خود بھی ہالینڈ کے اس لاؤنج میں اپنے احرام اور عبائے وغیرہ پہنے‘ شاید میں لفظوں میں ان عجیب اور خوبصورت محسوسات کو بیان نہ کر سکوں جو احرام باندھنے کے بعد ایک مسلمان کے دل میں اچانک سے سرائیت کر جاتے ہیں‘ دو نفل پڑھ کے تو جیسے اللہ کے سچے راستے کی مسافر بن چکی ہوں‘ میں نے اپنے بیٹے کے چہرے پر عجب نور کا عالم دیکھا
‘میں نے بے اختیار اپنے بیٹے کو پیار کیا‘ وہ تو انتہائی دنیا دار قسم کا لڑکا ہے لیکن اللہ کے گھر کی ایسی کشش اور کھینچ کہ وہ مسلسل ورد کرنے میں مشغول ہوگیا ہے اور احرام اور چپل پہن کر وہ روحانیت کے حصار میں کھوچکا ہے‘ جہاز جدہ جانے کیلئے روانہ ہوگیا‘ یہ فلائٹ صرف 6گھنٹوں کی ہے جہاز کا تمام عملہ یعنی ائر ہوسٹس وغیرہ بالکل نوجوان لڑکے لڑکیوں پر مشتمل ہے ان کا لباس ایک دم مسلمان ملک کی نمائندگی کر رہا ہے شاہ سلیمان نے اپنے نوجوانوں کو برسرروزگار کرنے کا ہر طریقہ اختیار کیا ہوا ہے یہ بات اور یہ خیال مجھے مکہ اور مدینہ کے قیام کے ہر ہر لمحے میں محسوس ہوتا رہا اور میں دل سے اس بات کی تصدیق بھی کرتی رہی اس پورے جہاز کے مسافروں میں ایک بزرگ آدمی نے احرام باندھا ہوا ہے اور اس کی بیگم نے میری طرح عبایہ اور سر کو سکارف سے چھپایا ہوا ہے‘ دونوں امریکہ سے آئے ہوئے ہیں ہمیں اپنی تیاری کے ساتھ دیکھ کرشاید سب سے زیادہ انہی کی خوشی ہوئی اور اپنوں نے یہ اسلامی رشتہ ہم سے بات کرکے پکا کیا‘ مسلمانوں کے درمیان حج و عمرے کا سفر اور مختلف ممالک کے لوگوں سے رنگ ونسل وزبان سے بیگانہ ہو کر تعلق پیدا کرنا ایک ایسا اسلامی طریقہ اور یگانگت کا مثالی ثبوت ہے جس کی مثال شاذونادر ہی ملتی ہے۔ احرام کی شرائط سخت ہوتی ہیں اور لمبی فلائٹ کے دوران ان شرائط کو قائم رکھنا اس سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے میں مسلسل سوچ رہی ہوں کہ ابھی ہم جدہ ائرپورٹ پر اتر جائینگے اور امیگریشن کی طوالت اور پھر جدہ سے مکہ تک کا سفر اور 35گھنٹوں کے سفر کے بعد مکہ میں پہنچ کر عمرہ کی ادائیگی‘ میری عمر کے
لوگوں کے لئے یقینا بہت آسان نہیں ہے پھر دعا مانگتی ہوں کہ اے خدا اگر اپنے گھر کی توفیق
دی ہے تو سب مراحل کو آسان کردینا‘ کورونا کی وباء نے حج اور عمرے کو بھی آسان نہیں رکھا اس لئے جدہ ائرپورٹ پر پہنچ کر اپنے فون پر ایک ایپ ڈاؤن لوڈ کرنی ہے اور ہر حاجن حاجی کو ایسا کرنا ہے اس ایپ کانام توکلنا ہے اس ایپ کے ذریعے عمرہ کرنے کیلئے وہاں کی انتظامیہ کو پیغام بھیجنا پڑتا ہے کہ میں جدہ ائرپورٹ پر لینڈ کرچکا ہوں اور مجھے وقت دیا جائے کہ میں طواف اور سعی کیلئے حرم کے اندر آسکوں‘ فون کی سکرین پر مختلف ٹائم سلاٹ نظر آرہے ہوتے ہیں اپنی سہولت کے وقت کو منتخب کرنا ہوتا ہے لیکن وقت مقرر کرنا سعودی انتظامیہ کی صوابدید ہوتا ہے ہم نے اپنا پیغام اپنا سامان حاصل کرتے ہوئے بھیجوادیا‘ یہ رات کے ایک بجے کا وقت تھا اور جواب فوراً ہی موصول ہوا اور دل کی دھڑکنوں کو بھی اتھل پتھل کر گیا کہ آپ کا وقت دو سے چار بجے صبح ہے بے اختیار شکرانے کے الفاظ اللہ پاک کے حضور میں لبوں پر آگئے امیگریشن پر نوجوان سعودی لڑکیاں
موجود تھیں بہت کم مرد دکھائی دیئے یہ تمام لڑکیاں تعلیم یافتہ سمجھ دار اور امیگریشن کے قواعد کی ماہر تھیں‘ شاہ سلمان نے اپنے ملک کے امیج کو یہ تبدیلیاں کرکے نہایت ہی مثبت بنا دیا ہے‘جس سہولت سے یہ خواتین انگریزی میں بات کر رہی ہیں وہ قابل تعریف ہے‘جدہ ائرپورٹ نیا بنا ہے اور باہر کے ممالک سے آنے والوں کو اس ائرپورٹ پر بے شمار سہولتیں فراہم کی گئی ہیں امیگریشن پر انگلیوں کے نشانات‘ تصویر اور چند سوالات کے بعد داخلے کی مہر ہمارے کینیڈین پاسپورٹ پر لگ چکی ہے ائرپورٹ اتنا وسیع وعریض ہے کہ مسافر اس جدیدیت سے دنگ رہ جاتا ہے انتظار گاہ کو بہت بڑے شیشے کی دیوار سے ڈھانپ دیا گیا ہے جہاں مسافروں کو لینے کیلئے آنے والے لوگ بڑی آسانی سے جہازوں سے اترنے والے مسافروں کو دیکھ سکتے ہیں اور پہچان سکتے ہیں ایسی انتظار گاہ میں نے پہلی دفعہ جدہ ائرپورٹ پر ہی دیکھی ہے ہم نے مکہ جانے تک کیلئے اپنی پرائیویٹ گاڑی کینیڈا سے بک کروائی ہوئی تھی اس جگہ ہمارا جدا ائرپورٹ تک کا سفر تمام ہوتا ہے۔