ٍڈیموں کی ضرورت

کوئی بھی بڑا ڈیم کثیر المقاصد ہوتا ہے‘اس کا بنیادی کام پانی ذخیرہ کرنا ہوتا ہے جسے بعد ازاں آب پاشی اور زراعت، بجلی بنانے،صنعتی اور گھریلو استعمال‘ ماحولیاتی بہتری‘ماہی گیری‘ سیاحت اور زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کے کام میں لایا جاتا ہے‘یونیورسٹی آف ٹوکیو جاپان کے پروفیسرز کی ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ ڈیم نہ صرف سیلاب کو روکتے ہیں بلکہ ڈیم عالمی موسمیاتی تبدیلی کے اثر کو بڑی حد تک کم کرنے میں مدد کرتے ہیں‘ورلڈ کمیشن آن لارج ڈیمز کے ڈیم رجسٹر کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں بنائے گئے ڈیموں کی کل تعداد 58,000 ہے جس میں سے آدھے سے زیادہ ڈیم صرف ہمارے دو پڑوسی ملکوں چین اور ہندوستان میں ہیں‘‘پاکستان کے ڈیموں کی تعداد 500بھی نہیں بنتی‘دنیا کے ہر ڈیم،خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس کے ڈیزائن کا بنیادی مقصد ہی  بڑے سیلابی ریلے کا زور توڑ کر اسے چھوٹے کمزور ریلے میں بدل کر آگے بھیجنے کے اصول پر بنا ہوتا ہے اور اگر دریائی گزرگاہوں پر اوپر تلے ایسے ڈیم بنا دئیے جائیں تو بڑے سیلابی ریلے اپنی موت آپ مر جاتے ہیں‘ امریکہ کی معیشت ہوور ڈیم کے بعد ہی سنبھلی اور چین نے سنبھلتے ہی دنیا کا سب سے بڑا تھری گور جز ڈیم کے نام سے بنایا اور تو اور افریقہ کے قحط زدہ ملک ایتھوپیا نے سنبھلتے ہی دریائے نیل پر میکینئیم ڈیم بنا دیا ہے‘صرف یہ ایک ڈیم 6ہزارمیگاواٹ تک بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو کہ تربیلا ڈیم سے بہت زیادہ ہے‘پاکستان میں بارشیں سال کے صرف تین مہینوں میں ہوتی ہیں جبکہ ہماری فصلوں کو سارا سال پانی چاہئے ہوتا ہے‘ڈیمانڈ اور سپلائی کے فرق کو صرف اسٹوریج سے ہی پورا کیا جا سکتا ہے لہٰذا پاکستان جیسے زرعی ملک کیلئے تو ڈیم ضروری ہیں‘دریاؤں کے علاوہ پہاڑی سیلابی نالوں سے آنیوالے بڑے سیلابی ریلوں کو بھی بڑی تعداد میں ڈیم بنا کر سیلاب سے بچا جا سکتا ہے جس کا واضح ثبوت اس سال کے سیلاب میں ڈیرہ اسماعیل خان کے شہر کا گومل زم ڈیم بننے کی وجہ سے بچ جانا ہے‘حالانکہ ڈیرہ کے شمال میں میانوالی ٹانک اور ڈیرہ کے جنوب میں تونسہ میں پہاڑی سیلابی نالوں پر ڈیم نہ بننے سے بہت تباہی ہوئی ہے‘بلوچستان میں ہونیوالی بارشوں کے پانی کا حجم بھی کم از کم 20ملین ایکڑ فٹ ہوتا ہے جب وہاں اب تک تعمیر کئے گئے ڈیموں کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف1.5 ملین ایکڑ فٹ ہے‘پاکستان میں بھی ایسی مناسب جگہیں ہیں جہاں دنیا کے سب سے بڑے ڈیم تھری گور جز سے بھی بڑا ڈیم بن سکتا ہے‘ سوال یہ نہیں کہ کیا ڈیم سیلاب کو روک سکتے ہیں؟ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ سیلاب کو روکنے کیلئے ہم کثیر تعداد میں ڈیم کیوں نہیں بناتے؟ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں جلد یا بدیر، اگر مزید ڈیم نہ بنائے گئے تو پورے ملک میں پانی کی کمی کے مسائل جنم لیں گے‘پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم تربیلا ہے جو کہ کے پی کے میں دریائے سندھ کے قریب واقع زمین سے بھرا ڈیم ہے لیکن ملک میں مستقبل کے لئے پانی ذخیرہ کرنے کی اتنی گنجائش نہیں ہے‘ ملک میں جاری صورتحال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے پاس صرف10 فیصد پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے‘دوسری طرف دنیامیں 40 فیصد صلاحیت ہے‘ 3 سال قبل ورلڈ بینک نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھاکہ ہمارے ملک میں زیادہ پانی حاصل ہورہا ہے جس کا 80 فیصد زراعت کے شعبے میں استعمال ہورہا ہے، اسکے علاوہ پانی کے انتظام کی حکمت عملی کی بدانتظامی کی وجہ سے ملک کو سالانہ 12 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے‘ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت تیس دن ہے بین الاقوامی معیارات کے مطابق ایک ملک کے پاس 120 دن کی گنجائش ہونی چاہیے‘ حقیقت یہ ہے کہ اگر مزید ڈیم نہ بنائے گئے تو پانی کی کمی سے ہمارے زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچے گا‘اس وقت ہم ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کا مشاہدہ کر رہے ہیں سیلاب کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنے پیاروں، مکانات، ریوڑ اورکھیتوں سے محروم ہو چکے ہیں ہنگامی بنیادوں پر کوئی ڈیم نہ بنائے گئے تو ہم جلدی اپنی تمام زرخیز زمینوں سے محروم ہو جائیں گے۔