افریقہ کے کسی غریب ملک کی اپنی عمر سے کئی سال بڑے لگنے والی ایک غریب عورت کسی غیر ملکی صحافی سے شکوہ بھری آواز میں کہہ رہی ہے ہاں میرا بیٹا اسی گندے تالاب سے پانی پیتا تھا اسکو اور پڑوس کے کتنے ہی بچوں کو پیٹ کی بیماریاں اس گندے پانی پینے سے ہوگئی تھیں اور پھر میرا بیٹا مر گیا‘ رپورٹر سے پوچھنے والے سوال پر میرا دل بھی دکھ گیا میرا بیٹا کیوں مرگیا؟ ہاں یہی سوال تھا جو وہ بار بار صحافی سے پوچھ رہی تھی میرے دل میں ایک ماں ہونے کے ناطے کتنے ہی ہمدردی اور رحم کے جذبات اُبھر آئے میں زیادہ دیر تک ایک ماں کے یہ اندوہناک جذبات نہیں دیکھ سکی‘ ریموٹ کا بٹن دباتے ہی ایک انگلش چینل پر زیوارت بک رہے تھے‘ خوبصورت ہاتھ اورذوق برق لباس میں خوبصورت گلے چمکتے ہیروں کو پہن کر فروخت کیلئے پیش کر رہے ہیں چہروں پر دولت کی چمک دمک اور صحت تندرستی خود پکار رہی تھی لیکن میرے ذہن پر غریب عورت کا یہ سوال چپک سا گیا تھا میرا بیٹا کیوں مر گیا‘ مجھے ہیروں اور خوبصورتی نے مطمئن نہیں کیا‘۔میں نے ٹی وی ہی بند کر دیا اور سوچنے لگی کہ بہت کم ایسا تاریخ میں ہوا ہے کہ تباہ حال ممالک نے اپنے آپ کو سہارا دیا ہے صرف وہی جن کو قسمت سے کوئی ہمدرد قائد میسر ہوگیا کیا کبھی ہم دولت کی ریل پیل اور اس کے فریب کے خول سے بہت زیادہ متاثر ہو جانے کے بغیر باہر نکل سکتے ہیں۔
غریب ممالک کے لوگ بھی بڑے بڑے ناموں والی مصنوعات کیلئے پاگل پنے کی حد تک برباد ہوتے ہیں مغرب میں خاص دنوں کی سیل لگی ہوئی ہو تو میں دیکھ کر حیران ہو جاتی ہوں کہ بڑے بڑے مہذب خواتین و حضرات ان اشیاء کو اٹھانے کیلئے آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں یہی حال غریب ممالک میں امیر لوگوں کا ہے برانڈ نام کے کپڑے جوتے ٹائیاں اور خاص طورپر پرس حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کو دھکے دیتے‘ گالم گلوچ اور چھینا چھپٹی کے مراحل طے کررہے ہوتے ہیں کراچی کی ایک خاتون بتا رہی تھی کہ دھکوں کے ساتھ یہ کپڑے حاصل کرکے درزیوں کو بھی الرٹ کر دیا جاتا ہے کہ راتوں رات کپڑے سینا ہے ایسا نہ ہو کہ یہی ڈیزائن میری ہمسائی یا دوست پہلے پہن لے تو سبکی ہو جائے گی آپ شاید یقین نہیں کرینگے۔ لڑائی مارکٹائی سے مشہور زمانہ نام والا یہ جوڑا دس ہزار سے لاکھوں روپوں تک کسی طرح کم نہیں ہوتا‘ شیخ سعدیؒ کا وہ قول یادآگیا جس میں وہ جوتے نہ ہونے کا شکوہ کرکے مسجد سے باہر آتے ہیں تو دیکھتے ہیں ایک شخص کے دونوں پیر نہیں ہیں اور وہ گھیسٹ کر زمین پر چل رہاہے‘اس پر وہ خدا سے معافی کا خواستگار ہوتا ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ آج کل جوتوں اور کپڑوں سے انسانی شخصیات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کیا گارنٹی ہے کہ جس شخص نے 10ہزار کے بوٹ پہنے ہیں اور10ہزار کا جوڑا پہن رکھا ہے وہ بہت نفیس ہے‘ بہت اعلیٰ ظرف ہے تخلیق کار ہے‘ دانشور ہے‘ اور جس کے جوتے واجبی ہیں کپڑے عام سے ہیں وہ ایک دم سے قدرومنزلت سے ہٹ گیا ہے‘ دراصل یہ تمام درجات‘ تمام معیار ہمارے اپنے اندر کے کمزور ضمیر نے بنارکھے ہیں اچھے کپڑے اچھے جوتے‘ معیار نہیں بنا سکتے‘ سادہ اور سستے کپڑوں میں بڑے قیمتی انسانی چھپے ہوتے ہیں میں نے بڑے بڑے گھروں کے سجے ہوئے ڈرائنگ روموں میں‘ میز پر انواع واقسام کی کھانے کی اشیاء سجا کر مہمان کے سامنے پیش کرنے والے لوگوں کے ماتھے پر بل اور دلوں میں میل دیکھا ہے اور بڑے غریب اور سفید پوش لوگوں کے گھروں میں اس وقت بھی خوشی کی چمک دیکھی ہے جب آپ اچانک ہی اسکے سر پر پہنچ جاتے ہیں نہ ان کو گھر کی سجاوٹ کی پرواہ ہوتی ہے‘ نہ ہی میز پر شامی کبابوں کے نہ ہونے کا کوئی خوف ہوتا ہے۔
وہ تو اپنے دوست اپنے ہمسائے اپنے بھائی بہن کو دیکھ کر اپنا خلوص لٹا رہا ہوتا ہے کبھی میں سوچتی ہوں کہ سالوں پہلے کتنے سادہ لوگ اس دنیا میں قیام پذیر تھے۔ ان کے لباس سادہ تھے‘ ان کے گھر سادہ تھے‘ ان کے دسترخوان سادگی کا پرتو تھے لیکن ان کو اپنے بھوکے ہمسائے کے بچوں کی فکر دل گیر رہتی تھی وہ اپنے غریب رشتہ داروں کی نگہداشت کے فرض کو پورا کرکے تھے کیسے بڑے صحافی‘ کیسے بڑے شاعر‘ ادیب بزنس پیشہ لوگ جن کا نام اور جن کی مثال آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ایسے عظیم اساتذہ‘ جو مرگئے تو کبھی دوبارہ ایسے پیدا نہ ہوئے‘ ایسی کتابیں چھوڑ گئے کہ کوئی کوشش کرے بھی تو دوبارہ نہ لکھ سکے‘ ایسی اقدار کہ تاریخ فکر کرے ہم نے کبھی ان کے بارے میں نہیں پڑھا کہ ان کے جوتے قیمتی ہوتے تھے یا وہ لاکھوں کا سوٹ پہنتے تھے سادہ اور درویش صفت لوگ‘ ذہین اور قدر دان لوگ‘ جن سے اقوام کی تکمیل ہوتی تھی، ہمدردی‘ محبت‘ رشتے سب ناپید ہوگئے ہیں ہمارے معیار بدل گئے ہیں۔
ہم انسان کا تجزیہ کپڑوں اور پیسوں سے لگاتے ہیں کبھی میں سوچتی ہوں کون ایسا شخص ہے جو اپنے پیسے راستوں میں پھینکتا ہے وہ اس کے بینک میں ہی پڑے رہتے ہیں پھر ہم کیوں ان کی طرح دولت حاصل کرنا چاہتے ہیں دولت ایسی شے کا نام ہے جو کبھی دیرپا نہیں ہوتی مرنے کے بعد شرافت‘ اعلیٰ ظرفی‘ نیکیاں اور اچھائیاں باقی رہ جاتی ہیں ایک امیر ترین آدمی اپنی پوری دولت دیکر بھی ایک منٹ فالتو اپنی زندگی کا نہیں خرید سکتا‘ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا تمہاری زندگی میں جسم اور روح کا رشتہ سب سے ناپائیدار رشتہ ہے کسی لمحے میں یہ تمہارا ساتھ چھوڑ سکتاہے‘ توپھر اس ناپائیدار رشتے کیلئے ایسی خود غرضانہ اور حریص زندگی گزارنے کا کیا فائدہ‘ مجھے اور آپ کو یہ سب سوچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔