میرے ہم وطن 

 خبریں پڑھنے اور خبریں سننے کا شوق کبھی بھی ختم نہیں ہوتا‘ پروفیشنل زندگی میں یہ میری سروس کا اہم جزو ہوتا تھا لیکن ایسے لوگ بھی دوران جاب دیکھے ہیں جن کو اخبار سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی وہ کرنٹ افیئر سے کوسوں دور صرف اپنے حال میں جینے کے شوقین تھے شاید کچھ لوگ غلط پروفیشن میں آ جاتے ہیں اور پھر ایسے میں جو ادارے کا نقصان ان کے نان پروفیشن رویوں سے ہوتا ہے وہ ہم اپنے ملک میں ہمیشہ بھگتتے ہیں لیکن مغربی دنیا میں اک لمبا عرصہ گزارتے ہوئے مجھے ہر لمحہ محسوس ہوا کہ پیشہ ورانہ رویے ان لوگوں پر ختم ہو جاتے ہیں۔یہاں ایک تو کسی بھی پیشے تک اندر جانے کے لئے مکمل تعلیم اور تجربہ کی بناد پر ہی ایسا ہوتا ہے مغربی میڈیا سے اس حد تک قریب ہوں کہ جب تک کینیڈا کے بارے میں دنیا کے بارے میں جانکا ری نہ ہو جائے تسلی نہیں ہوتی ابھی حال ہی میں موسمیاتی تبدیلیوں نے عالمی سطح پر دنیا کو متاثر کیا ہے ہمارے ملک کے علاقوں میں ہر سال ہی مون سون میں سیلاب آتا ہے لیکن اس سال مون سون کی تباہ کاریاں زیادہ جان لیوا تھیں‘ کینیڈا نے پانچ ملین ڈالر کی امداد ہمارے ملک کو اشیائے خورد و نوش خیمے اور کپڑوں کی صورت میں بھجوائی ہے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے مناظر کینیڈین ٹیلی ویژن اور ریڈیو نے نشر کئے ہیں اور آج کئی دن گزرنے کے بعد بھی ان کے فالو اپ کا سلسلہ اس طرح جاری ہے کہ جیسے دنیا میں سب سے زیادہ ہمدرد ملک پاکستان کے لئے کینیڈا ہے ایسا نہیں ہے بس مغربی میڈیا کی پالیسی میں ایک واضح فرق ہے جو انسانیت کی خدمت اور بقا کا فرق ہے جب میں یوٹیوب پر اپنے الیکٹرانک میڈیا کو سنتی ہوں اور ان لائن اخبارات پڑھتی ہوں تو لگتا ہے کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کچھ اور ہے۔ سیاسی حالات کی کوریج تو بھر پور ہوتی ہے اور اس کو زیادہ وقت بھی دیا جاتا ہے تاہم کچھ ایسے مسائل ہیں جو زیادہ کوریج کے حقدار ہیں اور ان کو مناسب انداز میں سامنے نہیں لایا گیا۔غریب کی غربت اور سیلاب سے تباہ و برباد ہونے والے لوگ کہیں زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔ زبانی کلامی جو حالت زار پنجاب اور سندھ کے علاقوں کی سنائی جاتی ہے وہ  بہت دکھی کر دینے والی ہے۔کینیڈا میں گزشتہ دو دنوں سے فیعانہ (Fiona) اور ای آن ناموں کے طوفان آ چکے ہیں جن کی پیشگی اطلاعات بھی تھیں اور نووواپسکوشیا اور سسیکچون جو کینیڈا کے صوبے میں ان میں بے پناہ حفاظتی انتظامات بھی کئے گئے تھے اس کے باوجود طوفان نے تباہی مچائی گھر زمین بوس ہو گئے فصلیں تباہ ہوئیں‘ سڑکیں ڈوب گئی اور تباہ ہو گئیں درخت گر گئے بجلی کے کھمبے گر گئے لیکن آپ یقین کرں یہ سب مالی نقصان تھا کوئی جانی نقصان اس لئے نہیں ہوا کہ طوفان سے پہلے ہی حکومتی محکمے اس حد تک پھرتیلے ہو چکے ہیں کہ اگر جانی نقصان ہو جاتا تو کینیڈا میں اس وقت کہرام ہوتا۔میں مسلسل ان آفت زدہ علاقوں کو فالو کر رہی ہوں کیوں کہ ٹی وی اور اخبارات میں صرف انہی علاقوں کی خبریں ہیں اب کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ یہ اٹاوہ میں بیٹھنے والے وزیر‘ مشیر‘ وزیراعظم خفا تو نہیں ہو جائیں گے کہ آج ٹی وی پر ہمارا چہرہ ہماری خبریں کیوں نہیں چلیں‘ کیا اپوزیشن اور حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہٹ کر کوئی بات کر رہے ہیں یا نہیں‘ بالکل نہیں یہ دونوں قوتیں صرف سیلاب زدہ علاقوں میں نظر آ رہی ہیں گھروں کا ملبہ اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ نئی سڑکیں بننا شروع ہو گئی ہیں متاثرین کو ایسے شلٹر دے گئے ہیں کہ شاید وہ ان کے اپنے گھروں سے بھی بہتر ہوں گے لیکن ان کے اپنے گھر بنتے ہی وہ وہاں شفٹ ہوجائیں گے تمام گھر انشورنس یافتہ ہیں گھروں کے مکینوں کو وقتی صدمہ ضرور پہنچا ہے لیکن انہیں یقین ہے ان کے گھر انشورنس والے خود کھڑے ہو کر بنوائیں گے اور ان کو حکومتی قانون کا تحفظ حاصل ہے کبھی میں سوچتیں ہوں کتنی خوش قسمت اقوام میں  جو حالات کا ایسے منظم انداز میں مقابلہ کرتی ہیں۔ دوسری طرف ہمارے حالات ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے وسائل کے اندر رہتے ہوئے ہر ممکن مدد کی ہے تاہم ان تمام حالات میں اگر کوئی کمی محسوس ہوتی ہے تو وہ منصوبہ بندی اور نظم و ضبط کی ہے۔سیلاب میں گھرے ہوئے لوگوں کی یہاں بھی مدد کی گئی ہے اور تمام اہل وطن نے جس ایثار اور خلوص کا مظاہرہ کیا ہے وہ یقینا بے مثال ہے۔ پھر بھی اگر ترقی یافتہ ممالک میں ایسے حالات کے حوالے سے کئے گئے کاموں سے اگر موازنہ کیا جائے تو اب بھی بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ ہمارے ہاں بھی اسی انداز میں قدرتی آفات کا مقابلہ کیا جائے اور وقت سے پہلے ہی تمام عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے تیاری کی جائے۔ جس طرح کینیڈا میں املاک کی انشورنس کی جاتی ہے اور کسی بھی آفت یا  حادثے کی صورت میں ہونے والے نقصان کی تلافی کی جاتی ہے اگر اسی طرح کا سسٹم ہمارے ہاں بھی رائج ہو تو کیا ہی بہتر ہوگا۔یہ حقیقت ہے کہ جس پیمانے پر پاکستان میں سیلاب آئے اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا مقابلہ کرنا آسان کام نہیں تھا۔