ماؤنٹ ایورسٹ کو فتح کرنیوالا رپی

نیپال بھی ان کچھ ممالک میں شامل ہیں جہاں کتے اور بلیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا کسی کوان کی بھوک پیاس میں ترس نہیں آتا‘ اور ہر طرف سے ان کو دھتکارا جاتا ہے‘ یورپ امریکہ اور مغربی دنیا کے دوسرے  علاقوں سے سینکڑوں سیاح نیپال میں موجود ہوتے ہیں ماؤنٹ ایورسٹ ایسی کشش کی حیثیت رکھتا ہے کہ نیپال کی سیاحت انڈسٹری مالامال ہے میں چونکہ خود نیپال میں ایک براڈکاسٹنگ کے تربیتی پروگرام میں شمولیت کی غرض سے رہ چکی ہوں تو میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ ہوٹل سیاحوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔یہ کتے جب ان سیاحوں کا پیار اپنے لئے محسوس کرتے ہیں تو وہ روٹی ملنے کی آس میں انکے پیچھے پیچھے چلتے رہتے ہیں‘ نیپال کے ان کتوں میں ریبیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سیاح ان کو پیار کرتے ہیں کھانا کھلاتے ہیں اور یہ ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے ماؤنٹ ایورسٹ پہاڑ کے نیچے تک پہنچ جاتے ہیں جو آنال ایک مغربی سیاح عورت ہے آج یہ کہانی جو آنا کی ہے۔ وہ ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے موسم گرما میں نیپال جاتی رہتی ہے اس کے پاس اپنا ایک کتا تھا جس کانام آسکر تھا۔جو آنا کو اس سے بہت ہمدردی تھی لیکن بدقسمتی سے ایک گاڑی کی ٹکر لگنے سے وہ مر گیا تھا۔ جو آنا کو جانوروں کی ہمدردی اور مدد کرنے کیلئے پہچانا جاتا ہے۔ وہ جانوروں کی مصیبت کے وقت مدد کرتی ہے اور ان کو خوراک و علاج  مہیا کرتی ہے۔ اسکو اینمل ایکٹوسٹ کے طور پر جانا جاتا ہے رپی(Ruppee) کو اس نے لداخ کے ایک گٹر میں دیکھا تھا وہ اس گٹر کے ڈبے سے خود نہیں نکل سکتا تھا جو آنا نے اسکو نکالا‘ اس کی مرہم پٹی کی وہ زخمی تھا اور بھوکا بھی‘ آسکر کی موت کے بعد جوآنا کے دل میں رپی کیلئے زیادہ ہمدردی تھی‘ اس نے رپی کو اپنا لیا وہ پہاڑوں کے دامن میں رہنے والا کتا تھا۔ اسکو ماؤنٹ ایورسٹ کی سردی اور نوکیلی چوٹیوں سے محبت تھی‘ شاید کوئی عام کتا ہوتا تو وہ سردی اور پتھروں پر چلنے سے قاصر ہوتا لیکن رپی شاید پیدائشی ماؤنٹینیر تھا۔ رپی کی عمر8مہینے تھی جوآنا کو ہمیشہ اپنے جانور کو پہاڑوں تک لانے کیلئے لمبے جہازوں والے روٹ لینا پڑتے تھے کیونکہ ہر جہاز پالتو جانور کے سفر کی اجازت نہیں دیتا۔اسی طرح وہ ماؤنٹ ایورسٹ پر جانے کیلئے اپنے سامان کے علاوہ اپنے جانور کیلئے بھی پورٹر کا بندوبست کرتی‘ اس کا کھانا بہت میڈیکل ایڈ اور دوسرا ضروری سامان علیحدہ پورٹر پہاڑ کی بیس(Bose)تک لے جانے میں اسکی مدد کرتا‘ پورٹرز بک کرنے کا مطلب زیادہ اخراجات ہوتا ہے لیکن جوآنا رپی کا ماؤنٹ ایورسٹ پر  چڑھنے کا جوش اور جذبہ جانتی تھی وہ اپنی ڈائری میں لکھتی ہے کہ شاید رپی انہی پہاڑوں میں پیدا ہوا اسلئے اسکو اونچائی کی طرف ٹھنڈے برف نوکیلے پتھروں پر چلنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ یہ2013 کی بات ہے جب مغربی دنیا کے بڑے بڑے اخباروں نے اپنی شہ سرخیوں میں لکھا کہ دنیا کا پہلا کتا جس نے ماؤنٹ ایورسٹ فتح کیا اور یہ رپی تھا جو23,289 فٹ سمندر کے لیول سے اوپر چڑھنے میں کامیاب ہوا‘ اور پھر صحیح سلامت نیچے زمین پر بھی آیا‘ جوآنا اینمل رائٹس ایکٹوسٹ  ہونے کے ناطے اپنے اس کارنامے پر خوش ہے کہ  ایک گٹر میں ملنے والا بے یارومددگار جانور مغربی اخباروں کی شہ سرخیوں میں آگیا اور شاید رپی کو بھی علم نہ تھا کہ وہ اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دے گیا ہے‘ اس سے پہلے بھی میرا نامی کتے نے ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھائی کی تھی لیکن اس کا فاصلہ کم تھا۔ رپی نے سب سے زیادہ فاصلہ طے کرکے اس کا ریکارڈ توڑ دیا۔ کہنے کو یہ ایک عام سے جانور کی کہانی ہے لیکن میں سمجھتی ہوں یہ ہمدردی‘ پیار مدد کرنے‘ جانوروں سے اپنائیت کرنے کی مثال ہے جانوروں سے محبت کرنا‘بے زبان جانوروں کو پانی پلادینا روٹی کھلادینا ثواب ہے بدقسمتی سے ہم بھی ان ہی لوگوں میں شامل ہیں جو جانوروں کو دھتکارتے ہیں اور اسکو پتھر مارتے ہیں۔ترکی کی ایک سیاحت کے دوران ہمارے ایک ساتھی نے ایک راہ چلتے کتے کو پتھر ماردیا۔ہمارا یہ ساتھی بہت پڑھا لکھا انجینئر تھا۔ہمارا ترک گائیڈ غصے سے بھر گیا اور اس نے ہمارے گروپ کا کوئی لحاظ پاس نہیں کیا اور کتنے ہی منٹس تک یہ تکرار جاری رہی کہ بے زبان کو پتھر کیوں مارا‘ اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ بات صحیح ہے اگر ہم جانور کو کھانا نہ دے سکیں تو اسکو پتھر مارنے کا بھی ہمارا کوئی حق نہیں‘ ترکی کی ایک مشہور مسجد جہاں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار ہے میں نے نماز پڑھتے ہوئے اپنی صفوں میں خوبصورت بلی دیکھی جو اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کسی بھی نمازی عورت نے اس کو مارنے کی کوشش نہیں کی ہر ایک نے نماز پڑھی بلی بیٹھی رہی اور مسجد کا ہال خالی ہوگیا‘ شاید وہ دل بہت بڑے ہوتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ جانوروں اور پرندوں کا پیار ہمدردی بھر دیتا ہے میری ایک گاؤں کی ہمسائی کی گائے کا بچہ بیمار تھا میں نے اسکو ایسے آنسوؤں سے روتا ہوا دیکھ کر گمان کیا جیسے کہ اسکا اپنا سگا بچہ بیمار ہے۔وہ بالکل ان پڑھ پھر بھی اس کا دل سونے کا بن گیا تھا اور آنسو خود بخود  اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔رپی کو گٹر سے نکالنے سے لے کر ماؤنٹ ایورسٹ کا فاتح بنانے تک کی کہانی مجھے کتنے ہی جانوروں سے شفقت اور کتنے ہی جانوروں سے ظلم کے سلوک کی کہانیاں یاد دلا گیا۔ رپی آج بھی جوآنا کے پاس ہے شاید اسکو اپنی فتح کے بارے میں کوئی نالج نہ ہو لیکن وہ جوآنا کو جانتا ہے جانور کبھی اپنے مالک کو نہیں بھلا سکتا۔