انصاف آپ کی دہلیز پر

وفاقی ٹیکس محتسب کی جانب سے گزشتہ ماہ گورنر ہاؤس پشاور میں ایک آگاہی سیمینارکا انعقاد کیاگیا جس کا موضوع تھا”انصاف آپ کی دہلیز پر“جبکہ مہمان خصوصی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی صاحب تھے۔ اس موقع پر گورنر خیبر پختونخوا مشتاق احمد غنی اور وفاقی محتسب ٹیکس ڈاکٹر آصف محمود جاہ(ہلال امتیازستارہ امتیاز)بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ آگاہی سیمینار میں شرکت کیلئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی خاص طور پر اسلام آباد سے پشاور پہنچے تھے۔گزشتہ چند ماہ سے ٹیکس محتسب کے ادارے کی جانب سے آگاہی کیلئے چاروں صوبوں میں پروگرامز منعقد کیے جا رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی اہم تقریب تھی۔ جس میں ایوانِ صنعت و تجارت اور دیگر تاجر تنظیموں کے نمائندوں اور شہر کی نمایاں شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ قائم مقام گورنر خیبر پختونخوا جناب مشتاق غنی نے سیمینار سے خطاب کے دوران تمام شہریوں کو ٹیکس دینے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکسوں کے نظام سب کی شرکت سے ملک کے مسائل جلدی حل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے ٹیکس نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ٹیکس دہندگان کی مشکلات کو بھی اُجاگر کیا۔

 کمپیئر الماس علی جوندہ نے دوست ملک ترکی کے حوالے سے کہا کہ وہاں مقدمات کی اچھی خاصی تعداد گفت و شنید کے ذریعے نمٹا دی جاتی ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے ایوان کو بتایا کہ معزز ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ بھی ایف ٹی او آرڈیننس 2000 کی شق 33 کے تحت بڑی تعداد میں کیسوں کے فیصلے گفت و شنید کے ذریعے کر رہے ہیں۔گورنر ہاؤس میں آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایف ٹی او ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کہا کہ گزشتہ چھ ماہ میں ایف بی آر سے متعلق3 ہزار سے زائد کیسوں پر احکامات جاری کیے جو گذشتہ برس کی سال بھر کی کارکردگی سے زیادہ ہیں۔ انہوں نے صدر مملکت کے اعتماد پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان آگاہی مہم کے نتیجے میں شکایات کنندگان کی تعداد چند ہی ماہ میں دو گنا ہوگئی ہے، اس میں مزید اضافے کیلئے وہ ملک بھرکے دورے کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ وہ ہر صوبے میں گئے ہیں جہاں انہوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار لوگوں کو علاج کی سہولت بہم پہنچانے کے علاوہ دامے درمے سخنے مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب سے ملک بھر میں بے حد نقصان پہنچا ہے، لوگوں کو بھی سیلاب زدگان کی مدد کیلئے آگے بڑھنا چاہئے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ لوگ اگر ٹیکسوں کا بنیادی مقصد سمجھ جائیں تو بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ 

دنیا کے اندر ریاست کے قیام کا ایک مقصد تمام شہریوں کو تعلیم و صحت کی یکساں سہولتوں کی فراہمی ہے۔ میرٹ پر ان سہولتوں کی فراہمی بہت بڑی ذمہ داری ہے میری نظر میں، ٹیکس دہندہ کو انصاف کی فراہمی کیلئے کسی موثر نظام کے قیام کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا نظام، جو ٹیکس دہندگان کو کسی بھی ناجائز دباؤ، مشکل سے نکال کر جلد از جلد انصاف مہیا کر سکے اسی لیے عدالتوں میں حکومت کیخلاف بہت زیادہ مقدمات دائر ہوتے ہیں۔ جس کسی کو ٹیکس نظام سے تکلیف پہنچتی ہے وہ عدالت سے رجوع کرتا ہے۔ وفاقی ٹیکس محتسب کا ادارہ ٹیکس نظام میں پہنچنے والی ناجائز تکالیف کو دور کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ یہ نظامِ انصاف کا اہم حصہ ہے۔ اس عدالت میں 60 دن کے اندر اندر انصاف مہیا کیا جاتا ہے۔ اتنے کم وقت میں انصاف کرنا آسان کام نہیں۔ ٹیکس محتسب قانونی طور پر اس مدت میں انصاف مہیا کرنے کے پابند ہیں۔ وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ اس قانونی مدت سے آگے بڑھ کر60 دن سے بھی کم وقت میں فیصلے کر رہے ہیں۔ 99 فیصد فیصلے 60 دنوں کے اندر اندر ہو جانا انوکھی بات ہے۔ اس طرح ان کی کارکردگی 100 فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔

 میں ٹیکس محتسب سے پوچھ رہا تھا کہ پاکستان میں کل ٹیکس دہندگان کتنے ہیں؟ انہوں نے یہ تعداد 33 لاکھ کے قریب بتائی۔ چھ ماہ میں 33 لاکھ میں سے 3ہزار کے قریب لوگ ٹیکس محتسب کے پاس آئے۔ میری اور ٹیکس محتسب کی پوری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس طرف آئیں۔شاید لوگ یہاں آنے سے ڈرتے ہیں۔ اس ڈر کو دور کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ میں نے گورنر خیبر پختونخوا مشتاق غنی سے بھی کہاکہ جب بھی اعلی عدالتوں کے چیف جسٹس یا وزرا صاحبان سے ملتا ہوں تو ان سے کہتا ہوں کہ دنیا بھر میں قانونی تنازعات کے حل کیلئے متبادل طریقہ کار پر بھی عمل کیا جا رہاہے۔ پاکستان میں اس پر عمل نہ کرنے سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ پڑ رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ماضی میں اسی خطے میں پنچایتی نظام میں لوگ کیا کرتے تھے۔ وہ فریقین کو بٹھاتے اور باہمی گفتگو کے ذریعے موقع پر فیصلہ کر دیا کرتے تھے۔ آبادی بڑھنے سے مشکلات پیدا ہوئیں۔ دنیا بھر میں بہت سارے فیصلے متبادل طریقہ کار کے تحت کیے جا رہے ہیں لیکن ہم اپنے اس پرانے نظام سے دور ہو گئے ہیں۔

 پاکستان میں اس کے تحت بہت کم مقدمات حل کیے جا رہے ہیں۔مقدمات کا بوجھ کم کرنے کیلئے ہمیں اس پرعمل کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت اس بات پر متفق ہے کہ آپ ٹیکس دیں، آپ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔ حکومت نہایت منصفانہ انداز میں ٹیکس لے گی۔ ٹیکس کا نظام ہرملک میں مختلف ہے لیکن بہت حد تک مماثل ہے۔ اسے بہتر بنانے کیلئے وسائل بڑھانا پڑیں گے۔ ٹیکس محتسب اورٹیکس لینے والے ادارے میں تعاون کی کیفیت ہے۔ ٹیکس محتسب صاحب ایف بی آر سے مکمل تعاون کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

 میرے پاس روزانہ دس پندرہ کیسز آتے ہیں، میں اسی دن سب کے فیصلے کرتا ہوں۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جو سپریم کورٹ کے جج بھی رہ چکے ہیں، میرے چیف لیگل ایڈوائزر ہیں۔ وہ مجھ سے ملنے آئے۔ وہ حیران تھے کہ دو کیسز میرے پاس دو ہفتے سے رکے ہوئے ہیں۔ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں فائل کھو تو نہیں گئی۔ یہ کیفیت ہے کام کے فوری نکلنے کی یعنی اگر کسی کیس کو دو ہفتے ہو جائیں تو چیف لیگل ایڈوائزر حیران ہو کر پوچھتے ہیں۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ میرے پاس کوئی فائل نہیں رکے گی۔ ایف ٹی او کے پاس ایک 81 سالہ بزرگ نے بھی شکایت کی تھی۔ جن سے 2333 روپے کا اضافی ٹیکس لے لیا گیا تھا۔ ایسی بہت ساری مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ ٹیکس محتسب کے نظام سے ٹیکس دہندگان کی آگاہی ضروری ہے کہ یہ ادارہ کم سے کم وقت میں مسئلہ حل کرا سکتا ہے۔ جہاں بھی تاخیر ہو رہی ہے اس کاحل کیا جانا چاہیے، عملہ کم ہے تو اس میں اضافہ کیا جانا چاہئے۔