ملک بھر میں ادویات کا بحران شدت اختیار کرنے لگا، کمپنیوں نے قیمتوں میں 40فیصد اضافے کا مطالبہ کردیا ہے، کراچی سمیت مختلف شہروں میں بخار،زکام، پیٹ اور کھانسی اور مرگی کے دورے کی بیشتر ادویات نایاب ہو چکی ہیں جبکہ جن میڈیکل اسٹورز پر موجود ہیں وہاں ادویات کی منہ مانگی قیمت وصول کی جارہی ہے۔ کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ ڈالر کی اونچی اڑان کی وجہ سے خام مال کی خرید وفروخت پرمنفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جبکہ کمپنیوں کی جانب سے ہول سیلرز کو اسٹاک فراہم نہیں کیا جارہا‘فارماسوٹیکل انڈسٹری کی جانب سے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، حالانکہ مارکیٹ ذرائع کے مطابق عالمی سطح پر ادویات کے خام مال کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے‘ ڈالر کے مہنگا ہونے کے باوجود ان پٹ اخراجات میں اضافہ نہیں ہوا‘ یہی وجہ ہے کہ ڈریپ کی رپورٹ پر کچھ ہفتے قبل وفاقی کابینہ نے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ مسترد کر دیا تھا آئین پاکستان کے تحت عوام کو مفت طبی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ دار ی ہے‘مملکت خداداد میں حالیہ تباہ کن سیلابی صورت حال سے نبرد آزما غریب عوام کو سر چھپانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور صاف پانی نا پید ہونے اور سیلابی پانی سے پیدا ہونے والی مختلف بیماریوں کی زد میں ہیں، ایسے میں ملک میں کام کرنے والی ادویہ ساز کمپنیاں من مانی پر اتر آئی ہیں اور ان کمپنیوں کی جانب سے زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کا مطالبہ بے چارے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے جبکہ پشاور سمیت دیگر شہروں میں ادویہ ساز کمپنیوں نے قیمتوں میں 40فیصد اضافے کا مطالبہ کردیا ہے؛ پشاور سمیت دیگر شہروں اور قصبوں میں بخار، زکام، پیٹ درد، کھانسی اور مرگی کی بیشتر ادویات نایاب ہوچکی ہیں، جبکہ جن دوا فروشان کی دکانوں پر موجود ہیں، وہاں بعض جگہ ادویات کی زیادہ قیمت وصول کی جارہی ہے‘موجودہ سیلابی صورت حال سے ملک کا تین چوتھائی حصہ متاثر ہوا ہے‘ سڑکیں اور پل بہہ گئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر مکانات اور دوسری املاک تباہ ہو چکی ہیں‘ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب زدہ علاقوں سے نقل مکانی
کر کے شاہراہوں کے کنارے پناہ لئے ہوئے ہیں اور بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ ایسے میں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ناانصافی پر نا انصافی ہے‘ سرکاری ونجی ہسپتالوں اور طبی ماہرین سمیت شہریوں نے اس صورت حال پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے‘ حکومت کو چاہئے کہ موجودہ نامساعد صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے فی الفور ادویات کی فراہمی اور دستیابی کا جائزہ لیا جائے تا کہ اس حوالے سے پیدا ہونے والے کسی بھی بحران پر قابو پایا جاسکے اور سیلاب زدگان اور غریب عوام کو سستے نرخوں پرادویات کی فراہمی یقینی بنائی جائے‘دنیا کے بیشتر ممالک میں دیکھا جائے تو علاج معالجہ کی سہولتیں فری فراہم کی جاتی ہیں،
جہاں ایسا نہیں، وہاں بھی ادویات عام آدمی کی دسترس میں ہوتی ہیں مگر ہمارے ہاں اشیائے ضروریہ سے لے کر ادویات تک غریب کی د سترس سے باہر جارہی ہیں،گزشتہ 2برس کے دوران 102ادویات کی قیمتوں میں 2.53سے 311.61فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے‘ایک طرف عوام کو ریلیف دینے کے دعوے کئے جا رہے ہیں تو دوسری جانب ادویات میں بار بار اضافہ کرکے عام آدمی سے جینے کی آس بھی چھینی جا رہی ہے‘وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ادویات کی دستیابی یقینی بنانے کیلئے قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ ادویات کی عدم دستیابی کی شکایات زبان زدعام ہیں، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ)جیسے ادارے اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ ادویات کی قیمتوں پر کنٹرول رکھیں اور مارکیٹ میں ان کی قلت پیدا نہ ہونے دیں لیکن یہاں الٹی گنگا بہنے کے مصداق مارکیٹ سے جان بچانے والی اکثر دواؤں کی قلت اور ان کی قیمتوں میں اضافے کی شکایات سامنے آرہی ہیں،ڈرگ مافیا کے حوالے حکومت کو پیش کی جانے والی رپورٹس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ میڈیسن مافیا اتنا طاقت ور ہے کہ اس کے آگے حکومتی ادارے بھی بے بس نظر آتے ہیں‘ پاکستان کے اندر اکثر ہسپتالوں میں ملنے والی ادویات بھی انہی مافیا کی کمپنیوں کی استعمال ہوتی ہیں، اس صورت حال میں حکومت اور اداروں سے فعال کردارادا کرنے کی امید کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے، مہنگائی مافیا سے لے کر ڈرگ مافیا تک سب اپنی من مانیاں کر رہے ہیں اور ذمہ دار محکمے خاموش تماشائی بن کر غیریبوں سے ہونے والی ناانصافیوں کا نظارہ کر رہے ہیں۔