خیبر روڈ پر صو بائی اسمبلی کی عما رت کے سامنے محکمہ مو سمیات کا صو بائی دفتر اور مشہور رصد گاہ کی عمارتیں ہیں امیر خان میر یہاں سینئر تھے تو ہم ان سے ملنے آتے ایک آدھ بار انہوں نے ہمیں اہم تنصیبات سے بھی آگاہ کیا اور آبزرویشن روم کی جدید ترین مشینری بھی دکھائی اتوار کا دن آتا تو ہمیں ساتھ لیکر بھا نہ ما ڑی میں اپنے بڑے بھا ئی بزرگ استاد سے ملنے جاتے جو وہاں اما مت اور خطابت کر تے تھے 24اکتو بر 2022ء کی شام میر صاحب کی وفات کی خبر سنی تو مجھے ان کی پیشہ ورانہ زند گی کے مہ و سال یا د آئے۔ پشاور سے ان کا تبا دلہ لا ہور ہوا، لا ہور سے تر قی پا کر گلگت میں چارج سنبھا لا اور گلگت ہی سے انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی امیر خان میر ہر دل عزیز شخصیت اور مر نجان مرنج طبیعت کے ما لک تھے، خدا کی طرف سے ان کو محبت اور قنا عت کی دولت کا وافر حصہ عطا ہوا تھا 1936ء میں چترال کے مضا فا تی گاؤں چمر کن میں بیگا لے قبیلہ کے سلیمان خا ن کے ہاں پیدا ہوئے۔ سٹیٹ ہا ئی سکول چترال سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد استاد مقرر ہوئے اُس زما نے میں ریا ست کے وسائل محدود تھے اس لئے با صلا حیت نو جوا نوں کو وفا قی حکومت میں اچھی نو کر یوں کی تلاش ہوتی تھی چنانچہ دو سال بعد محکمہ دفاع کے شعبہ مو سمیات میں ملا زمت کے لئے منتخب ہوئے۔ اسی کو پیشہ بنایا مگر ہوا کے رُخ پر چلنے کے بجا ئے ہواوں کے مقا بل اپنا چلن رکھا، ایک وقت میں امیر خا ن میر چترال کے عسکر ی ہیڈ کوارٹر دروش میں متعین تھے جہاں شہزادہ افضل ولی، اشرف خا ن خلجی، مو لا نا عبد الروف‘ فیض اللہ، محمد سعید، محمد اشرف اور دیگر احباب پر مشتمل ایک ایسا حلقہ تھا جو درس قرآن، درس حدیث اور اصو ل دین کے مطا لعے کے لئے مخصو ص تھا۔امیر خان میر بھی احباب کے اس حلقے میں شا مل ہوئے۔اس دینی کا م کے تسلسل میں آپ کو یہ سعادت ملی کہ اپنے گھر میں بیٹی کیلئے بچیوں کا مد رسہ قائم کیا اور دن بھر تلا وت قرآن کی صدا گھر میں گونجتی رہی آپ کے بیٹے کو بھی علم دین کی سعادت نصیب ہوئی پو تا بھی حا فظ قرآن بنا خود تلاوت کر تے تو آنسو تھمنے کا نا م نہ لیتے۔ ملا زمت سے ریٹائر منٹ لینے کے بعد آپ چترال کے تحصیل نا ظم منتخب ہوئے 2001سے 2005تک اس عہدے پر متمکن رہے۔ میر صاحب نے سیا سی عہدے پر رہتے ہوئے اپنے دامن کو آلو دہ نہیں ہونے دیا یہا ں تک کہ سیاسی مخالفین بھی آپ کی اما نت داری اور صدا قت کے قائل ہو گئے۔ یہ بہت بڑا امتحا ن تھا اور اس میں سر خرو ہو نا آ سان نہ تھا اُ ن کی زند گی کا ایک اور پہلو ادب اور شعر و شا عری سے ان کا شغف اور ذوق و شوق تھا مادری زبان کھوار کی ادبی تنظیم انجمن ترقی کھوار کی صدارت پر بھی فائز ہوئے کتا بوں کی تدوین میں حصہ لیا تین اہم کتا بوں کی ادارت اور تدوین کا ری سے نا م کما یا۔ انجمن کے مشا عروں، مذاکروں، سیمیناروں اور کانفرنسوں میں تنظیمی امور سنبھا ل کر پروگراموں کو کا میابی سے ہم کنا ر کیا۔آپ کی شخصیت بڑی دلا ویز اور متا ثر کن تھی۔ ہر وقت ہشاش بشاش اور مسکرا تے چہرے کے ساتھ نظر آتے۔ان کا کہنا تھا کہ محبت ایک طاقت اور توا نا ئی ہے، قنا عت دنیا میں انسا ن کی سب سے بڑی دولت ہے علا مہ اقبال کے فارسی اور اردو کلا م سے بر محل حوالے دینا ان کا وطیرہ تھا۔نما ز جنازہ پڑ ھا نے کے بعد ان کے منجھلے بیٹے مو لا نا اشفاق احمد نے شر کاء سے مختصر خطا ب کر کے سب کا شکر یہ ادا کیا اپنے باپ کو یا د کر تے ہوئے کہا کہ بزر گوار نے اپنی اولا د کو صداقت اور قنا عت کی دولت میراث میں عطا کی ہے اور یہ سب سے بڑی دولت ہے امیر خا ن میر کی وفات سے ان کا خاندان محبت کرنے اور محبت بانٹنے والے بزرگوار کی سر پر ستی سے محروم ہوا۔ ان کے حلقہ احباب کو پُر مزاح گفتگو میں علم و ادب کے مو تی بکھیر نے اور لطا ئف وظرائف کے انبار لگا نے والے دوست کی جدا ئی کا صدمہ جھیلنا پڑا جن کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی کیونکہ ایسی شخصیات شاذ ونادر پیدا ہوتی ہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی