یہ خیال اکثر پریشان کرتا ہے کہ کوئی تو وجہ ہوگی کہ ہم نے تمام تر قدرتی، مادی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ترقی کی بجائے زوال کی جانب سفر کیا۔1947کے پاکستان اور آج کے پاکستان کا موازنہ کیجیے اندازہ ہوجائے گا کہ اس وقت ہم جس مقام پر کھڑے تھے، اس کے مطابق ہمیں آج چین اور جاپان سے کہیں آگے ہونا چاہئے تھا۔ چین کی حالت تو اس وقت بہت ہی زیادہ خستہ تھی۔ طویل جنگ نے اسے نڈھال کردیا تھا اور اس کا بنیادی ڈھانچہ برباد ہوگیا تھا۔تعمیر نو کا عمل انتہائی دشوار گزار تھا۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ صرف 73سال بعد یہ ملک دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن جائے گا۔ یہ ملک آزادی سے پہلے22 سال تک جنگوں اور خانہ جنگیوں کا شکار رہ چکا تھا۔ جنگوں سے چین کی صنعتوں کو بھی بدترین نقصان پہنچایا اور صرف15 فیصد صنعتیں باقی رہ گئی تھیں۔ 1949میں کمیونسٹ انقلاب کامیاب ہوا جس کے بعد اس ملک میں حیرت انگیز ترقی کا سفر شروع ہوگیا۔جب1947میں ہم آزاد ہوئے۔ان کے مقابلے میں ہماری حالت کہیں بہتر تھی۔ وطن عزیز ہر طرح کی نعمتوں سے مالال ہے جن میں چار موسم، کھیت کھلیاں، بہترین نہری نظام،خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قیمتی پتھر، سونے اور گیس کے ذخائر موجود ہیں لیکن اس سب کے باوجود ہم عالمی اداروں سے قرض لینے پر مجبور ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جس ملک نے اپنے وسائل پر بھروسہ اور اپنی افرادی قوت سے استفادہ کیا وہ اقتصادی اور سماجی میدان میں زقندیں بھرتا رہا، آج دنیا کا معاشی انجن پٹرولیم مصنوعات کا محتاج ہے، لیکن ساتھ ہی متبادل توانائی کے نت نئے سستے وسائل کے استعمال کی جستجو میں لگی ریاستیں توانائی بحران کے خاتمہ کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔اس وقت پاکستانی معیشت حالیہ سیلاب کی وجہ سے شدید معاشی اور انسانی بحران کا شکار ہے،ملکی معیشت کو مہنگائی، بیرونی مالی دبا ؤاور غیریقینی صورت حال کا سامنا ہے۔ موجودہ مالی سال معاشی شرح نموہدف سے کم رہنے کا امکان ہے، سیلاب کے باعث فصلیں متاثر ہوئی ہیں اور خوراک کے عدم تحفظ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ مہنگائی کی وجہ خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ سیلاب اور روپے کی قدر میں کمی ہے۔معمولات زندگی کو برقرار رکھنے والی سرگرمیوں،مارکیٹس تک پہنچنے میں مشکلات اور سپلائی چین میں رکاوٹوں کے باعث چھوٹے کاروباری ادارے بھی متاثر ہوئے ہیں‘دکانوں اور گوداموں میں بارش کا پانی بھر جانے سے کھانے پینے کا موجودہ ذخیرہ خراب ہو گیا ہے۔ سیلاب کے ان تباہ کن اثرات میں سب سے دور رس اثرہماری زراعت پر پڑاہے۔ پاکستان جس کی معیشت 21 فیصد جی ڈی پی زراعت پر منحصر ہے۔ ہمارے ملک میں تقریبا ً45 فیصدملازمتیں بالواسطہ یا بلاواسط زراعت سے جڑی ہوئی ہیں اور 60فیصد برآمدات زراعت پرمبنی اشیاء سے جڑی ہیں۔ حالیہ سیلاب سے انداز ا 20لاکھ فصلیں اور زمینیں متاثر ہوئی ہیں۔مستقبل قریب میں معیشت کے تمام شعبوں سے متعلق سپلائی چین بری طرح متاثر ہوں گی۔ اشیا کی نقل وحمل میں تا خیر ہوگی۔ خام مال کی نقل وحمل میں تاخیر کے نتیجے میں مصنوعات کی تیاری بھی تاخیر کا شکار ہوگئی‘ جس سے برآمدات میں کمی واقع ہوگی‘جس کے نتیجے میں زرمبادلہ کی قلت سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہوگا۔سیلاب سے ہونے والے نقصانات کاتخمینہ 10ارب ڈالر سے زیادہ لگایا جا رہاہے۔ بینکنگ اورفنانس انڈسٹری کو ان کی مقروض صنعتوں کوپہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانے میں ابھی وقت لگے گا۔ہمیں ان سیلابوں سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا اندازہ لگانے میں کم از کم ایک پورا سال لگے گا، جب کہ دوبارہ تعمیرمیں مزید وقت لگے گا۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے، مہنگائی کی شرح کے مزیدبڑھنے کا خدشہ ہے۔ حکومت وقت کو ضروری اور فوری اقدامات کرنا ہوں گے تا کہ وطن عزیز میں سیلاب زدہ علاقوں کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے، اس ضمن میں حکومت نے جو زرعی پیکج کا اعلان کیا ہے وہ نہایت اہم اور بروقت اقدام ہے‘کیونکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ زراعت میں بہتری کیلئے سستے بیج،کھاد اور بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جائے، سیلاب کے پانی کی وجہ سے زمین زیادہ پیداوار دیتی ہیں اگر فوری طور پر کسانوں کو یہ مراعات دی جائیں تو اگلے سال ہماری فصلیں پیداوار زیادہ دیں گی۔ بلند شرح سود جو معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہے اس کو ختم ہونا چاہئے۔ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا چاہئے‘ہم موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہیں،اگر چہ ہم کاربن کے اخراج میں 2 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتے ہیں، لیکن اس کے منفی نتائج کے لحاظ سے اس کا نقصان ہم پر زیادہ ہے، ہمیں اس سے نمٹنے کے لئے ابھی سے تیاری کرنی چاہئے۔