علامہ اقبالؒ کی آفاقی فکر

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ 9نومبر 1877ء  کو  سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ اقبالؒ کے فلسفے اور نظریات کا ہی ثمر تھا کہ ہمیں ایک آزاد وطن نصیب ہوا۔اُنہوں نے مسلمانوں میں ملی جذبہ بیدار کرنے کے لئے گرانقدر خدمات انجام دیں۔بلاشبہ اُن کی شاعری لازوال ہے۔وہ بہ حیثیت شاعر عالمی شہرت رکھتے ہیں،آج بھی دُنیا بھر میں اُن کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو عقیدتوں اور محبتوں کے پھول اُن پر نچھاور کرتے ہیں۔ہماری قوم کا وتیرہ بن گیا ہے کہ کسی بھی خاص دن پر وہ اُس حوالے سے بڑے جوش وخروش کا مظاہرہ کرتی ہے،پھر پورے سال اُس ضمن میں خاموشی رہتی ہے۔ اسی طرح شاعرمشرق کی خدمات کے اعتراف میں سال میں محض دو دن منانا اور پھر اُنہیں فراموش کر دینے کی روش اختیار کرنا مناسب طرز عمل نہیں۔اقبالؒ دراصل ایسے لافانی فلسفے،فکر اور نظریات کا نام ہے۔ہمیں اس عظیم شاعر کے افکار کا پر چار محض برسی اور سالگرہ کے مواقع پر ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہر لمحہ اُنہیں اپنے پیش نظر رکھنا اور اُن کو پروان چڑھانا چاہئے۔بلاشبہ ملک وقوم اقبال کے نظریات اور افکار پر عمل پیرا ہو کر ہی ترقی کی معراج کو پہنچ سکتے ہیں۔غرض اُن کی آفاقی فکر کی پیروی میں ہی ہماری فلاح وبہبود پوشیدہ ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے 
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
علامہ اقبال نے یہ شعر تاریخ ساز شخصیت کے لئے لکھا تھا اور بلا شک وشبہ علامہ اقبال پاک وہند کی ایک ایسی تاریخ ساز اور عہد ساز شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست کا ”نظریہ“متعارف کیا بلکہ اپنی شاعری میں جدید نظریات،سائنس اور عالمی فکر کی اس امکانی قوت کو بیان کیا جس کے محور پر انسانیت وافاقیت زمانہ اول سے گردش کرتی چلی آرہی ہے جس کا سفرہمیشہ سے آگے اور مزید آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔علامہ اقبال کے انقلاب کا آفتاب مشرق سے طلوع ہوتا ہے،اس کی اولین کرنیں اسلامی مشرقی کو بیدار،متحداور سرگرم عمل کرتی ہیں۔مگر اس کی بھر پور روشنی تمام عالم انسانی کو منور کرتی ہے۔اقبالؒ نئی دنیا کی تعمیر کی دعوت دو وجوہات سے دیتے ہیں۔کلام اقبال کا بیشتر حصہ ایسا ہے جس میں براہ راست انسانوں سے خطاب ہے یا انسانوں کی ترجمانی ہے۔انسان دوستی،احترام آدمیت اور عظمت انسانی کی تائیدوتفسیر کلام اقبالؒ کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ کلام اقبال میں خاصی مقدار میں ایسے اشعار ہیں جن کا موضوع انسان اور عالم انسانیت ہے۔وہ ایک بین الاقوامی دور کے دانشور اور مفکر تھے لہٰذاوہ ہماری تاریخ کے سب سے پہلے اور بڑے شاعر تھے جنہوں نے شعوری طور پر آفاقیت کو اپنا مطمح نظر بنایا۔علامہ اقبال اسلامی قومیت کے علمبردار تھے ان کی اسلامی اور ملی شاعری آفاقیت کے منافی نہیں۔درحقیقت اقبال کی انسان دوستی کو قرآنی تصور توحید سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔نظریہ توحید ہی مستقل طور پر انسان کو خوف سے نجات دلاتا ہے اور مظلوم میں ظالم سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے۔اکیسویں صدی شاید ماضی کی صدیوں سے زیادہ حساس صدی ہے کہ انسان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔جہاں ایک طرف  دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔اقبال نے مسلمانوں کو الگ پہچان کے ساتھ سر اٹھانے کی تحریک دی۔انہوں نے یہ بھی باور کروایاکہ یہ قوم غلام ہو ہی نہیں 
سکتی۔اس لئے تمام مسلمان یکجا ہو کر اپنی پہچان کے لئے ظالم کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں تو آدھے سے زیادہ مسائل تو ایسے ہی حل ہو جائیں گے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال بیسوی صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان،سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے اُردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے شاعری میں بنیادی رجحان احیائے امت اسلام کی طرف تھا ”داریکنسٹرکشن آف ریلیشن تھاٹ ان اسلام“کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب اور چند مشہور کتب بھی تحریر کی جن کے نام یہ ہیں۔”بانگِ درا (اُردو)“”بالِ جبریل (اُردو)“”ضربِ کلیم (اُردو)“”ارمغانِ حجاز(اُردو)“”تجوید فکربت اسلام (اُردو)“ ”اسرار ورموز (فارسی)“ ”پیام مشرق (فارسی)“”زبورِ عجم (فارسی)“”جاوید نامہ (فارسی)“”پس چاہ بیار کرد (فارسی)“ ”دیوان محمد اقبال (عربی والیم 1تا 10)“۔اقبال کسی ایک دور کا شاعر نہیں ہے اس نے تمام زمانوں کو اپنے افکار کے ذریعے محیط کیا ہے۔اقبال کی تمام خصوصیات اور فکر اقبال کی تمام جہتیں دراصل قرآن عظیم کی رہنمائی میں تشکیل پاتی ہیں۔اقبال کے نزدیک قوم کی عظمت رفتہ کی بحالی قرآن اور حامل قرآن حضرت محمد مصطفی ؐ کی طرف رجوع کرنے سے ممکن ہے۔انسان کے لیے رشد وہدایت کے یہی دومنبع ہیں،ان سے گریز کرکے دین ملتا ہے نہ دنیا اور نہ زندگی کو زندگی بنایا جا سکتا ہے اور نہ آخرت کو بقا کا مقام دیا جا سکتا ہے۔علامہ اقبالؒ مسلمان سے جدت کردار کا طالب ہے اور اس لیے واضح طور پر اعلان کرتا ہے کہ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے،جو انہوں نے 1930ء میں الہٰ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا یہی 
نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا