امریکہ کے مشہور زمانہ شہر شکاگو میں ایک معمر آدمی80سال کی عمر میں مرگیا جب تک وہ جیا نہایت اعلیٰ ترین زندگی گزاری‘ پرتعیش گھروں میں وقت گزارا‘ دریاؤں میں اور سمندروں میں کشتی بانی کی اور دم آخر تک زندگی کو جیتا رہا ہمارے کچھ بزرگ تو اپنا بڑھاپا کسی بیٹی بیٹا داماد کے گھر اس طرح گزارتے ہیں کہ لبوں پر شکایت نہیں ہوتی۔ کچھ بوڑھے والدین جو صرف ایک گھر کے مالک ہوتے ہیں اکثر ان جھگڑوں اور روز دن کی بدمزگی سے بچنے کیلئے اپنا ایک واحد گھر بھی فروخت کر دیتے ہیں اور پھر ان کا جو حال ہوتا ہے وہ ایک دنیا دیکھتی ہے، مغربی معاشروں میں یہ باتیں مختلف ہیں قوانین سخت ہیں کوئی کسی کی پراپرٹی غلط طور پر ہتھیانے کا سوچ نہیں سکتا‘ دل چاہے تو کسی کو بھی دے دیں دل نہ چاہے تو کسی کو بھی نہ دے‘ بعض لوگ ملین ڈالرز کی جائیدادیں اور نقد رقوم صرف اپنے پالتو جانوروں کے نام کر جاتے ہیں اور ان جانوروں کی دیکھ بھال اس طرح ہی کی جاتی ہے جیسے اسکا مالک زندہ ہے اور یہ سلسلہ ان جانوروں کے مر جانے تک جاری رہتا ہے اور آخر کار وہ تمام دولت دنیا سرکار لے لیتی ہے‘ کینیڈا کے بینکوں میں ہر سال لاکھوں بینک اکاؤنٹس میں وہ رقوم ملین ڈالرز میں موجود ہوتی ہے جن کا وارث کوئی نہیں ہوتا‘ جب وہ مر جاتے ہیں تو لاوارث اکاؤنٹس کہلاتے ہیں قانون کے مطابق خاص مدت گزر جانے کے بعد وہ حکومت کے کھاتوں میں شامل ہو جاتے ہیں امریکہ میں وراثت کے قانون کچھ مختلف ہیں کیونکہ جوزف اسٹنک جب 80سال کا تھا تو اس نے اپنی کشتی کو رینویٹ کروایا اور اپنے کشتی کے لائسنس کو بھی ری نیو کروایا‘ یعنی وہ اتنا صحت مند تھا کہ سمندروں کا سینہ چیر کر اپنی کشتی میں اپنی خوشی کا سامان کر سکتا تھا اسکا گھر شکاگو کی مشہور
ترین گلی میں تھا اور وسیع و عریض تھا اس نے شادی تو کی تھی لیکن کوئی اولاد نہ تھی بیوی یا تو مر چکی تھی یا چھوڑ کر جاچکی تھی قسمت دیکھیں کہ جوزف اسٹنک کے سات بہن بھائی تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس وقت زندہ نہ تھا کہ جوزف اسٹنک کا انتقال ہوا‘ نہ ہی ان سات بہن بھائیوں کے بچے تھے ہاں اس کے کچھ کزن تھے جو شکاگو میں ہی رہتے تھے لیکن کسی کا کسی سے کوئی رابطہ نہ تھا جوزف اسٹنک پولینڈ کا تھا اسلئے زیادہ تر دور پار کے رشتہ دار پولینڈ اور سلواکیہ کے رہائشی ہیں مغربی ممالک کے خاص طور پر کینیڈا اور امریکہ کے200 سالہ پرانے امیگرنٹ پولینڈ افریقہ جاپان اور چین کے رہائشی تھے اس لئے ان دونوں ملکوں میں ان کی نسلوں کی بھرمار ہے انکے اباؤ اجداد نے تو کسمپرسی کی زندگیاں ان ممالک میں گزاریں لیکن ان کی نسلیں نہایت ہوشیار چالانک اور تیز طرار ہیں ان کو مغربی ممالک میں خوب پیسہ بنانا آتا ہے اور بنا بھی رہے ہیں جوزف اسٹنک کا اٹارنی جنرل میتھوپیپری کہتا ہے کہ اس نے اپنی لائف میں ایسا کیس پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی ملین ڈالرز کا مالک مرا ہو اور اس کے وارث موجود نہ ہوں امریکہ میں بے شمار کمپنیاں ایسی دولتوں
کیلئے کام کرتی ہیں جو اپنے وارثوں کا بتائے بغیر مرجاتے ہیں ایس ہی ایک کمپنی جوزف اسٹنک کے اثاثے اور کیش رقم کو تقسیم کرنے کیلئے گزشتہ کئی سالوں سے کام کر رہی ہے جوزف اسٹنک 2016 میں مرگیا تھا اور11ملین ڈالرز کے اثاثے اور نقدی اس نے چھوڑی تھی کمپنی نے دن رات کام کرکے اس کے کچھ ایسے کزن کو ڈھونڈا جو شکاگو ہی میں موجود ہیں اس کام کے لئے کمپنی نے شجرہ نسب کا درخت بنایا جسکو فیملی ٹری بھی کہا جاتا ہے بتایا جاتا ہے کہ یہ شجرہ نسب 15فٹ لمبا ہے ایک کمرے جتنا لمبا چوڑا ان کو ایسا کرنا پڑا کیونکہ وارثوں کو ڈھونڈنا آسان کام بھی نہیں تھا اسلئے11ملین ڈالرز کے اثاثوں کو تقسیم کرنے کے کام کیلئے ان کو کئی سال لگ گئے اس شجرہ نسب میں پولینڈ‘ سلواکیہ اور شکاگو میں رہنے والے جوزف اسٹنک کے دور دراز کے وہ تمام رشتہ دار اور اسکی نسلیں ہیں جو کبھی جوزف اسٹنک سے نہیں ملیں اور نہ ہی اس کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کی اور اب نہ ہی اس کے مرنے کے بعد اس کی کسی وراثت میں دلچسپی لے رہے ہیں اٹارنی جنرل کاکہنا ہے کہ دور پار کے تمام رشتہ داروں میں اثاثے کیش کی صورت تقسیم کئے جائینگے جس کیلئے تمام پراپرٹی بیچ دی جائیگی اور اسکے بعد شجرہ نسب کے مطابق ہر وارث کے حصے میں 60ہزار امریکن ڈالرز آئینگے یعنی شجرہ نسب جس میں سینکڑوں لوگ تو ضرور شامل ہونگے60ہزار امریکن ڈالر انکو امیر کر دینگے کیونکہ یہ بہت بڑی رقم ہے خاص طور پر پولینڈ اور سلواکیہ جہاں پر کرنسی کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے جوزف اسٹنک کی وراثت کتنے ہی لوگوں کو امیر بنادیگی یہ ایک ایسی دلچسپ کہانی ہے کہ اٹارنی جنرل بھی اقرار کرتا ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں ایسی کہانی ابھی تک منظرعام پر نہیں آئی۔