مہنگائی کی شرح میں اضافہ

حکومت کی لاکھ کوششوں کے باوجود گرانفروشوں کی جانب سے خود ساختہ مہنگائی  کا مسئلہ بدستور موجود ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے بازاروں پر چھاپے مارے اور جو دکاندار بھی سرکاری نرخنامے سے تجاوز کرتے ہوئے اشیائے خوردونوش فروخت کرتے ہوئے پایا جائے اسے کڑی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کا سوچے بھی نہیں ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان جو کہ عوامی مشکلات کے حل کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں اور اچانک چھاپوں کے ذریعے عوام کو خدمات اور بنیادی ضروریات کی معیاری فراہمی کے حوالے سے سرگررم رہتے ہیں گرانفروشوں کو بھی لگا نے میں کامیابی حاصل کر لیں گے گزشتہ 3سال کے دوران اشیائے  ضروریہ اور خدمات کی قیمتوں، خاص طور پر اشیائے خوردونوش، پٹرول کی مصنوعات،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ایک غیر معمولی اقتصادی بحران کی نشان دہی کر رہا ہے۔ گزشتہ روز جاری ہونے والے وفاقی ادارہ شماریات کی  مہنگائی رپورٹ کے مطابق ماہ اکتوبر میں مہنگائی کی سالانہ بنیاد پر شرح 26.56 فیصد ریکارڈ کی گئی جو ستمبر کے 23.18 فیصد کے مقابلے میں 3.38 فیصد زیادہ ہے یہ صورتحال یقینا صارفین کی مزید پر یشانی کو ظاہر کرتی ہے جبکہ متذکرہ مہینے میں بہتری آنے کے امکانات ظاہر کئے جارہے تھے۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں گراوٹ کی شرح جوا کتوبر میں گزشتہ مہینوں کے مقابلے میں کم رہی اس کے باوجود پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں جون تا ستمبر ہونے والے ہوشربا اضافے کو 50 سال کی بلند ترین شرح قرار دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس سے محض کم آمدنی والا طبقہ مزید مشکلات کا شکار نہیں ہوا بلکہ متوسط سے لے کر اچھے خاصے کھاتے پیتے کنبے بھی متاثر ہوئے ہیں جس کے اثرات روزمرہ گھریلو بجٹ کے ساتھ تعلیم اور صحت پر بھی پڑے ہیں۔ آبادی کا 33 فیصد طبقہ جو پہلے ہی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھا اس کی حالیہ شرح بڑھ کر 38 فیصد ہوچکی ہے جس کے زندہ رہنے کیلئے خوراک بنیادی شرط ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو متذکرہ مجموعی تناظر میں ایک ٹھوس میکنزم بنانے کی ضرورت ہے جس سے مہنگائی اور خوراک کے عدم تحفظ سے دو چار غریب طبقے کو دو وقت کی روٹی میسر آ سکے‘ ملک کے17بڑے شہروں سے 51 اشیائے ضرورت کے تقابلی جائزے کے مطابق 22اشیا کے نرخوں میں اضافہ،6اشیا کے نرخوں میں کمی جبکہ 23میں استحکام رہاجبکہ عمومی طور پر اس صورت حال کا اطلاق مارکیٹ میں پہلے سے موجود اشیاء کی قیمتوں پر ہوا ہے جبکہ مصنوعات کی تیاری کے لئے حاصل کیا جانے والا پہلے کے مقابلے میں مہنگا خام مال اور دوسری اشیا ء جب اپنے پیداواری عمل سے گزریں گی تو اس کے بعد جب نئی قیمتو ں کا تعین ہوگا تو حقیقی اثرات سامنے آئیں گے اسی طرح مارکیٹ سے بعض ادویات کی قلت کی شکایات بھی ہیں‘ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان جاری ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ مہنگائی میں کمی کو اپنی ترجیح بنائے۔معیشت میں بہتری کے جو دعوے سامنے آرہے ہیں ان کا فائدہ عوام کو اسی صورت ہو سکے گا کہ انہیں روزگار میسر ہوا اور مہنگائی کم ہو مہنگائی میں کمی کی خاطر اگر مجسٹریسی نظام دوبارہ لانیکی ضرورت ہے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے جبکہ حکومت بار بار مجسٹریسی نظام لانیکا کہہ رہی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اس میں تاخیر ہورہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مجسٹریسی نظام ماضی کی طرح جلد ا ز جلد فعال کیا جائے‘ اس سے قبل بھی  میں نے اپنے کالموں کی انہی سطور میں کئی بار مجسٹریسی نظام کو دوبارہ شروع کرنے کا ذکر کیا ہے  اگر ماضی میں ا س کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں تو اب بھی اس کامیاب تجربے کو آزمایا جائے‘ اس وقت حکومت کی کوششوں کے باعث زیادہ تر معاشی انڈیکیٹر مثبت ہیں تاہم بہتر ہوتی معیشت کا فائدہ عوام کو تب ہی ہو سکتا ہے جب ان کے اثرات عوام تک پہنچیں۔ اور اس کیلئے ضروری ہے کہ نچلی سطح پر ایسے اقدامات کئے جائیں کہ خود ساختہ مہنگائی کی گنجائش نہ رہے‘اس حوالے سے اگر مناسب اقدامات میں تاخیر کی گئی تو ایسا نہ ہو کہ سانپ نکل جانے کے بعد لیکر پیٹنے والی کیفیت سامنے آجائے۔