جب پاکستان اداس ہوتا ہے

مغربی ممالک میں جب بھی پاکستان کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں چاہے وہ خاندان کے اندر ہوں یا باہر تو پاکستان اور اس میں ہونیوالے واقعات ضرور زیر بحث آتے ہیں ابھی کچھ دن پہلے ہی کینیڈین پولیس نے قصور میں بیٹھے ہوئے ایسے ظالم شخص کا سراغ لگا کے پاکستان کے حوالے کیا ہے جو وہاں بیٹھ کر بچوں اور غلط مواد پر مشتمل فلمیں مغربی ممالک کے گروہوں کوبیچتا تھا گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان میں لگاتار ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جو معصوم بچوں کی عزت وحرمت سے متعلق تھے ایک انسان ہونے کے ناطے کون ایسا بے حس ہوگا جس کو ان واقعات سے دکھ نہ ہوا ہوگا لیکن دکھ کی یہ لہر اور زخم کی یہ چبھن بڑی وقتی ہوتی ہے اگر یہ لوگوں کی حد تک وقتی ہو تو کوئی بات نہیں شاید ہم بحیثیت قوم بہت ہی احساس سے عاری لوگ ہوتے جا رہے ہیں‘اب خیال آتا ہے کہ انگریز کی غلامی میں بھی ہم سب احساسات سے عاری تھے برصغیر کے بڑے شعراء کی شاعری تمام لوگوں کے احساسات کو جگانے پر مشتمل ہے لیکن لوگ تھے کہ ظلم وستم سہتے تھے اور ٹس سے مس نہ ہوتے تھے‘ اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور پھر قتل وغارت کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے لوگوں کا احساس وقتی ہو تو شاید اتنا گھمبیر مسئلہ نہ ہو لیکن یہاں تو قانون کا احساس وقتی ہے‘ قانون بھی وقت اور گھنٹوں کیساتھ بھولنے کا اور نرم ہوجانے کا بھرپور عزم رکھے ہوئے ہے‘ ادھر جرم ہوئے کچھ دن ہوئے ادھر قانون بھی اپنی چال کو سست کرگیا‘مغرب میں بھی جرائم کی کمی نہیں بلکہ جنسی جرائم میں تو مغرب سرفہرست ہے لیکن قانون اتنا سخت اور ظالم ہے کہ یا تو مجرم اسی وقت بے نقاب ہوجاتے ہیں اورسالوں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں اور دوسری صورت میں سالوں تک قانون کو چین کی نیند نہیں آتی جب تک کہ مجرم سلاخوں کے پیچھے نہ پہنچ جائے کوئی رورعایت نہیں ہوتی مجرم کو پاتال سے نکال کر لانا انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اسلئے لوگ قانون توڑتے ہوئے جرم کرتے ہوئے بیسیوں مرتبہ سوچتے ہیں جب تک ہمارے قانون کا گھیرا مجرموں کے گرد تنگ اور سخت نہیں ہوگا تب تک ہمارے گلی محلوں میں ہونیوالے جرائم جاری رہیں گے جب ہم گلیوں اور محلوں کے جرائم کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں سرفہرست چوری چکاری اور بدکاری ہے خصوصاً معصوم بچوں کیساتھ برا سلوک ہمارے سامنے ہے کیا بحیثیت ایک شہری ہماری ذمہ داری کا ہم پر یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اپنی چھوٹی سی گلی میں بدکردار لوگوں پرنظر رکھیں جبکہ ہمیں اچھی طرح انکا علم ہوتا ہے کہ کون سے گھر میں کس طرح کا مرد رہتا ہے اولین فرض تو والدین کا ہے کہ وہ اپنے بچوں کا خیال رکھیں دوئم محلے دار بھی اسکے ذمہ دار ہیں خصوصاً جب کسی گلی محلے میں کوئی جعلی عامل آجاتا ہے اور کم علمی کی بناء پر لوگ جوق درجوق انکے آستانے پر حاضری دینا شروع کر دیتے ہیں تو محلے میں رہنے والے سمجھدار لوگوں کا
 فرض ہے کہ اس شخص کی عقل کو ٹھکانے لگائیں قانون بھی اس سلسلے میں جوابدہ ہے ان کو اپنے علاقے کے ایسے لوگوں کے بارے میں کیسے علم نہیں ہے وہ جو گشت پر پولیس نکلا کرتی تھی اور گلی محلے کے مجرموں کے دل دہل جاتے تھے وہ گشت کیا آج کل بھی جاری ہے یا ختم ہوگئی ہے‘ پاکستان کے لوگ آتومغرب میں گئے ہیں لیکن انکے دل دماغ پاکستان کی طرف ہیں جب اس قسم کی خبریں کہ اتنے بڑے نیٹ ورک کام کررہے ہیں اور وہ بھی پنجاب کے دور دراز علاقوں میں بیٹھ کر ڈالر اور یوروز کمانے کیلئے ایسے گندے مغربی گروپوں کیساتھ انکے رابطے ہیں جو انٹرنیشنل لیول پر یہ دھندے کرتے ہیں قانون سخت ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ممالک میں یہ کام آسانی کیساتھ نہیں کرسکتے اسلئے تھرڈ ورلڈ ممالک کے لوگوں کا سہارا لیتے ہیں قانون کی حفاظت کرنیوالوں کیساتھ ساتھ جب تک ہم اور آپ بھی اپنی آنکھیں کھلی
 نہیں رکھیں گے تو ہم کامیاب نہیں ہونگے اور ہمارے بچے محفوظ نہیں ہوں گے ایک وہ زمانہ تھا کہ ہر سڑک اورہرراستہ غیر محفوظ تھااور دہشت گردی تھی بم دھماکے ہوتے تھے کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کس نے کپڑوں کے نیچے خودکش جیکٹ پہنی ہے خون‘ لوتھڑے‘جنازے عام تھے لیکن جب قانون سخت ہوا وہ سب کچھ کیاگیا جو بہت پہلے ہی کرنا چاہئے تھا تو بم دھماکے کم ہوتے گئے گو کہ وہ غم‘وہ زخم ان پیاروں کے جو سدا زمین کے نیچے چلے گئے کبھی نہیں بھلائے جا سکتے لیکن ہم نے سخت اقدامات کرکے بہت سارے لوگوں کی زندگیاں بچالیں جب یہاں ان ممالک میں لوگ ملتے ہیں تو جہاں جرائم کی بات ہوتی ہے وہاں مجرموں کو پکڑنے کیلئے بھی روزانہ کی پراگریس کا جائزہ لیا جاتا ہے سیاستدانوں کے بیانات کو بھی غور سے سنا جاتا ہے میڈیا کے اینکرز اور ان ٹاک شوز میں ہونیوالی باتوں کو بھی خوب سنا جاتا ہے اور لوگ ریمارکس بھی دیتے ہیں آپ کہیں گے کہ اس سے کیا ہوتا ہے کہ بیرون ممالک لوگ بیٹھ کر ایسا کہتے ہیں یا سوچتے ہیں واقعی اس سے ہوتا توکچھ بھی نہیں ہے لیکن آپ اپنے ہم وطنوں کے جذبات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ اپنے وطن کے ساتھ اپنے دکھ اور سکھ کا رشتہ کیسے استوار رکھتے ہیں اگر پاکستان میں کوئی خوشی کی بات ہو تو یہاں سب کھکھلا اٹھتے ہیں مسکراتے ہیں مٹھائیاں بانٹتے ہیں اورجب پاکستان اداس ہوتو ان کا دل بے کل ہوجاتا ہے ان کی آنکھوں میں پانی ہوتا ہے پھر وہ سوچنے لگتے ہیں کہ شاید انہوں نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا کہ ملک چھوڑ دیا تھا‘ اپنے بچوں کو محفوظ پناہ گاہ میں لے آئے ہیں جہاں ان کی جان کو کوئی خطرہ نہیں لیکن پاکستان کے ان معصوم بچوں کیلئے اپنے دل میں زخم لئے پھرتے ہیں جو غیر محفوظ ہیں جن کا تعلیمی مستقبل تاریک ہے اور حد تو یہ ہے کہ اس کے بارے میں قانون بھی خاموش ہے۔