کل3 دسمبر کو دنیابھر میں خصوصی افراد کاعالمی دن منایا جا ئے گا۔اور اس حوالے سے پاکستان کی بات کی جائے تومعذور افراد کسی بھی معاشرے کا اہم حصہ ہوتے ہیں اور دیگر شہریوں کی طرح اپنی زندگی اچھے طریقے سے بسر کرنے کا حق رکھتے ہیں۔دنیا میں اس طبقے کو ”خصوصی افراد کا نام دیا گیا ہے تاکہ ان کا احساس محرومی ختم کیا جا سکے۔ انہیں صرف یہ نام دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان کے لیے حقیقی معنوں میں خصوصی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔انسانی حقوق کا عالمی قانون خصوصی افراد کے تمام تر بنیادی حقوق کی گارنٹی دیتا ہے جبکہ ہمارے ملکی قانون میں بھی معذور افراد کے لیے خصوصی مراعات رکھی گئی ہیں جن میں ملازمت میں کوٹہ، مفت تعلیم،صحت،علاج معالجہ ودیگر سہولیات شامل ہیں۔ان قوانین کے باوجود معذور افراد کو بے شمار مسائل درپیش ہیں جن کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں 18سال تک کی عمر کے 60لاکھ سے زائد بچے کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔جن میں ذہنی معذوری کا شکار بھی ہیں۔جن میں ذہنی معذوربچوں کی تعداد 30فیصد، نابینا پن کا شکار 20فیصد،قوت سماعت سے محروم 10فیصد جبکہ جسمانی معذوری کا شکار 40فیصد ہیں۔بڑی تعداد کے حوالے سے صوبائی سطح پر سندھ میں سب سے ذیادہ 3.05فیصد اور پنجاب میں میں دوسرے نمبر پر2.23فیصد ہیں۔پاکستان میں سرکاری ونجی 744اسپیشل ایجوکیشن کے ادارے کام کر رہے ہیں۔صوبہ پنجاب میں سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد 237ہے۔یہ تاثر غلط ہے کہ حکومتی سطح پر معذور افراد کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے بلکہ ان کی بحالی ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔عملدرآمد یا دیگر حوالے سے جو مسائل ہیں وہ صرف خصوصی افراد کے لیے ہی نہیں بلکہ عام آدمی کو بھی ان مسائل کا سامنا ہے۔ترقی یا فتہ ممالک میں بھی حکومتوں کے پاس وسائل محدود ہوتے ہیں اور سارے اخراجات حکومتیں برداشت نہیں کر سکتیں اس کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کا کردار اہم ہوتا ہے۔حکومت کی جانب سے اب تک 68ہزار معذور افراد کو خدمت کارڈ جاری کیے جا چکے ہیں جن کے تحت 12سو روپے کے حساب سے 7کروڑ روپے ماہانہ لوگوں کو فراہم کیا جا رہا ہے جو بہت بڑی رقم ہے۔گورنمنٹ معذور افراد کو ڈیلی ویجز کی مد میں 30لاکھ ماہانہ تنخواہ دے رہی ہے۔معذور افراد کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ووکیشنل ٹریننگ فراہم کی جارہی ہے جس کی وجہ سے انہیں ملازمت کے زیادہ بہتر مواقع ملتے ہیں۔اگر ووکیشنل ٹریننگ کے بعد کوئی اپنا کاروبار کرنا چاہتا ہے تو حکومت اسے قرضہ بھی فراہم کرتی ہے۔حکومت نے معذور افراد کی ملازمت کا کوٹہ 2فیصد سے بڑھا کر 3فیصد کر دیا گیا۔معذور افراد کے لیے گریڈ 1سے گریڈ4تک کوئی پابندی نہیں ہے۔حکومت نے ریگولر جابز کا انتظار نہیں کیا بلکہ افرادی قوت کے لحاظ سے3فیصد کوٹہ نکال کر معذور افراد کے لیے ملازمت کی تشہیر کی جو بہت بڑا اقدام ہے۔معذور افراد کی بحالی کے لیے حکومت ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے اور اپنے وسائل سے بڑھ کر کام کر رہی ہے لیکن تمام مسائل کے حل میں وقت لگے گا۔ہر ضلع میں معذور افراد کے فوکل پرسن موجودہیں،اس کے علاوہ ان کی کمیٹیاں بھی بنائی گئی ہیں جبکہ ڈی سی او کی سربراہی میں ان کی میٹنگز ہوتی ہیں۔اس کے بعد ڈویژن کی سطح پر بھی کمیٹیاں قائم ہیں جن کے ذریعے ان کے مسائل حل کیے جاتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہمارے ملک کی 10فیصد آبادی معذور افراد پر مشتمل ہے جبکہ چار اقسام کی معذوری کے لحاظ سے پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب معذور افراد ہیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ پالیسی معذوروں کے حوالے سے بنائی جاتی ہے لیکن ان سے مشاورت نہیں کی جاتی۔اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ معذوروں کے حوال سے کسی بھی سطح پر پالیسی بنانے کے لیے معذور افراد کو شامل کیا جائے،ان سے رائے لی جائے،ان کے مسائل پوچھے جائیں اور پھر اس کی روشنی میں پالیسی بنائی جائے۔حکومت کی معذور افراد کے حوالے سے چند ایک سکیمیں بہترین ہیں جن کا موازنہ اگر بھارت کے ساتھ کیا جائے تو ہم بہتر ہیں۔اگر بنگلہ دیش اور سارک ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو پاکستان کی معذوروں کی بحالی اور سوشل ویلفیئر کی پالیسی ان تمام ممالک سے بہتر ہے۔کسی ملک میں معذور افراد کے لیے ملا زمت میں 3فیصد کوٹہ نہیں ہے،میڈیکل کالجوں میں معذور افراد کو داخلہ نہیں دیا جا تا۔اس میں مسئلہ صرف عملدرآمد کا ہے کیونکہ جہاں افسر ایماندار اور بہتر ہیں وہاں لوگوں تک اچھے نتائج پہنچتے ہیں لیکن جہاں ایسا نہیں ہے وہاں لوگ سہولیات سے محروم ہیں۔ہمارا یہ رویہ ہر شعبے میں ہے۔اگر لوگ معذوروں کی بحالی کو مشن سمجھ کر کام کریں تو بہت سی چیزیں بہتر ہو جائیں گی۔اگر معذور افراد کی نقل وحرکت کا معاملہ حل کر دیا جائے تو ہمارے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ حکومت کو معذور افرادکی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معذور افراد کو اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کی سطح پر زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں تا کہ ان میں تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی ہو سکے ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق ان کی پرورش کی کوشش کرنی چاہیے روزگار کی فراہمی اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی ان کے ساتھ پیش آنے والی معاشرتی نا انصافیوں کو دور کرتے ہوئے ایسا ماحول دینا ہوگا جس سے وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور معاشرے کے مفید اور کارآمد شہربن سکیں اس دن کے منانے کے حوالہ سے پیغام یہی ہے کہ رنگ،نسل اور ذات سے بالاتر ہو کر خصوصی افراد کی بحالی میں انفرادی واجتماعی طور پر بھر پور کردار ادا کیا جائے۔