پولیس آفیسر خاتون تھی‘ ایک کار کے اردگرد مزید دو تین پولیس والے بھی کھڑے تھے لیکن خاتون کار کو نیچے ہوکر دیکھ رہی تھی‘ کچھ لوگ بھی تماش بین کے طور پر اپنی گاڑیاں ذرا آہستہ کرچکے تھے‘عموماً مغربی ممالک میں لوگ ادھر ادھر دیکھے بغیر زندگیاں گزارتے ہیں‘ انہیں قطعاً پرواہ نہیں ہوتی کہ کیا ہورہا ہے‘ کون گر گیا ہے‘ کون رو رہا ہے‘ کون مر گیا ہے‘ سب سے بڑی ذمہ داری قانوناً ان کی یہ بنتی ہے کہ وہ پولیس کو انفارم کردیں‘ پولیس خود پہنچ جائے گی اور سب سنبھال لے گی‘ کیونکہ مغربی ممالک کی پولیس آپکی مدد کرنے کے لئے ہوتی ہے‘ پولیس آفیسر کو بھی کسی طرف سے یہ کال آئی تھی کہ گاڑی کے نیچے ایک سانپ ہے جو کہ ہل رہا ہے نہ باہر آتا ہے‘ بس چکلی مار کے بیٹھا ہواہے‘ آپ پڑھ کرحیران ہوں گے کہ وہ ایک بے سہاراسانپ تھا جو کسی نے پالا ہوا تھا اور اب اپنے مالک سے بچھڑ گیا تھا اور اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ گاڑی کے نیچے کیسے پہنچ گیا‘ پولیس کی نفری اس بے گھر سانپ کو شیلٹر ہوم یعنی سانپوں کی پناہ گاہ پہنچانے کیلئے اسکی مدد کرنے گاڑی کے اردگرد کھڑی تھی‘ خاتون آفیسر سانپ پکڑنے کی ماہر تھی‘ جیسے ہمارے ملک میں بم ڈسپوزل سکواڈ والے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر بم کو ناکارہ بناتے ہیں‘ یہاں بھی ایسا ہی ایک سین تھا‘بہت جلد خاتون آفیسر نے سانپ کو پکڑ لیا اور نہایت مہارت سے ایک تھیلے میں منتقل کردیا اور پولیس وہاں سے شیلٹر ہوم کیلئے روانہ ہوگئی جب سانپ کا مالک مل جائے گا تو یہ اس کو واپس کردیا جائے گا‘مغرب میں جانوروں کے حقوق شاید انسانوں سے بھی زیادہ ہیں‘ ہم جب جرنلزم پڑھا کرتے تھے تو نیوز کی تعریف کتابوں میں یوں بھی لکھی ہوئی تھی کہ اگر آپ یہ سنیں کہ کتے نے انسان کو کاٹ لیا تو یہ خبر نہیں ہے لیکن اگر آپ یہ سنیں کہ انسان نے کتے کو کاٹ لیا ہے تویہ خبر ہے‘ مغرب ایسی انہونی خبروں سے بھرا پڑا ہے‘ فوڈ مارکیٹ میں کتوں‘ بلیوں‘ پرندوں اور پالتو جانوروں کی خوراک کیلئے اتنے بڑے بڑے سیکشن ہیں اور اتنے سستے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے‘ اشتہارات میں تو جانوروں کے ذریعے پروڈکٹ بیچنے کی بھرمار ہے کیونکہ لوگ جانوروں سے پیار کرتے ہیں کتا تو یہاں کا لاٹ صاحب ہے بہت آؤ بھگت مغرب میں کتوں کی ہے‘کتوں کیلئے صوفے‘ کشن‘ ان کو گرم رکھنے کیلئے گرم بلاؤز اور خوبصورت زنجیریں‘ میں نے یہاں ننھے خوبصورت کتوں کیساتھ ساتھ نہایت خوفناک آنکھوں والے‘ منہ سے جھاگ نکالنے والے اور بڑی بڑی بے ہنگم شکلوں والے کتے بھی دیکھے ہیں‘خصوصاً اپارٹمنٹ بلڈنگز جہاں لفٹ کے ذریعے لوگ اوپر نیچے آتے ہیں وہاں تو کتوں کو ناپسند کرنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے لیکن کیا مجال ہے کہ آپ کسی کے جانور کو میلی آنکھ سے دیکھیں یا اسکے بارے میں کوئی غلط لفظ منہ سے نکالیں یہ قانوناً جرم ہے‘ بلکہ کتوں کیساتھ انکا لاڈ‘پیار انکے بچوں سے زیادہ ہوتا ہے‘ کتوں کیساتھ خوبصورت تصاویر‘ انکے علیحدہ کمرے‘ انکی بے پناہ محبت کا لازوال ثبوت ہوتا ہے‘ کتا تو ہے وفادار جانور‘ وہ بھی اپنے مالک کے ایک اشارے کا منتظر ہوتا ہے اور مالک سے پیار کرتا ہے‘ بعض اوقات تو بہت امیر ترین بوڑھے انگریز اپنی جائیداد میں کتوں کو بھی حصہ دیتے ہیں تاکہ انکے مرنے کے بعد اس جائیداد کی آمدنی سے اس کا بھرپور خیال رکھا جاسکے‘ ایک محفل میں بلیوں کی محبت زبان زدعام تھی‘ ایک خاتون کے پاس کتے اور بلیاں دونوں تھے جن سے وہ اور اسکے بچے پیار کرتے تھے‘ اس سے جانوروں کے پیار کی بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اسکی بلیاں اور ایک کتا زینی اور زویا ان کو کتنی زیادہ پیاری ہیں‘ ایک دفعہ زینی آم کی گٹھلی نکل گئی دو تین دن تو پتہ نہ چل سکا جب اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور بیمار ہوگئی تو ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا اسکے ایکسرے ہوئے‘ پتہ چلا کوئی سخت چیز آنتوں میں موجود ہے‘ دوائیوں سے بھی آرام نہ آیا‘ ساڑھے تین ہزار ڈالر سے اسکا آپریشن ہوا آنتوں میں سے آم کی گٹھلی نکالی گئی۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کی عید اور سادہ سی یادیں
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
داستان ایک محل کی
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محل سے کھنڈر بننے کی کہانی اور سر آغا خان
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
شہزادی درشہوار
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
پبلک مائن سٹیٹ آرکنساس امریکہ
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو