عالمی سطح پر کل 9دسمبر کو کرپشن سے نجات کاعالمی دن منایا جائیگاکیونکہ کرپشن پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔جس سے نمٹنے کیلئے عالمی سطح پر بھی اقدامات کئے جار ہے ہیں۔پاکستان نے بھی پچھلے کچھ عرصہ میں کرپشن کی لعنت سے نجات حاصل کرنے کیلئے اہم اقدامات اٹھائے جس کی وجہ سے کچھ اچھے نتائج آئے ہیں موجودہ حکومت نے بھی کرپشن کے مکمل خاتمے کا عزم کررکھا ہے۔کرپشن کے خلاف عالمی سطح پر پورا ایک دن وقف کرنے کا مقصدنہ صرف کرپشن کے خلاف جدوجہدکیلئے تجدید عہد کرنا ہے بلکہ اس کے ذریعے عام و خواص میں اس اہم مسئلہ کے بارے میں شعوراور آگہی بھی پیدا کی جا رہی ہے۔قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہماری حکومت کی سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری کرپشن کا خاتمہ ہے۔ کیونکہ کرپشن بہت سی برائیوں کی جڑ ہے۔ افسوس اتنے سال گزرنے کے باوجود کرپشن کے خاتمے کیلئے قانون سازی کے ساتھ ساتھ بہت سے اقدامات اٹھا نے کے باجود یہ مسئلہ ابھی موجود ہے۔کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو وبائی امراض کی طرح پھیلتا ہے اورمعاشرے کو کھاجاتا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ زندگی کی آسائشات حاصل کرنے کی دوڑ میں تیزی ہے جس میں ہر کوئی دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہے اور ظاہر ہے کہ مالی وسائل اگر آڑے آئیں تو پھر ان وسائل میں اضافے کیلئے ناجائز ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے جس میں مالی کرپشن سر فہرست ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس موذی مرض سے کسی بھی قوم کی سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔کرپشن یا بدعنوانی صرف رشوت اور غبن کا نام نہیں۔ اپنے عہداور اعتماد کو توڑنا یا مالی اور مادی معاملات کے ضابطوں کی خلاف ورزی بھی بدعنوانی کی شکلیں ہیں۔ کسی برائی کے خلاف جدوجہد کا انحصار معاشرہ کے اخلاقی معیاروں پر ہوتا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم کس بات کو رد اور کس کو قبول کرتے ہیں۔ بدعنوانی کے رویوں کے ساتھ بدعنوانی کا مقابلہ ممکن نہیں۔ ریاست، عوام، معاشرہ، آئین اور قدریں الگ الگ چیزیں ہیں۔ان سب چیزوں کے اشتراک سے انسانی تہذیب اور انسانی تاریخ جنم لیتی ہے۔ سینکڑوں برس قبل ایک تاریخ دان اور محقق نے ایک کتاب تحریر کی تھی جسے ”ابن خلدون کا مقدمہ“کہاجاتا ہے۔ یہ کتاب ساری دنیا میں ایسے تمام اصولوں کی مستند ترین دستاویز سمجھی جاتی ہے جو ریاست عوام اور معاشرے کے باہمی تعلق کو کنٹرول کرتے ہیں۔وہ چیز جسے ہم کرپشن کہتے ہیں اس تاریخی سچ کا دوسرا نام ہے جس پر ابن خلدون نے اپنے”مقدمہ“ میں روشنی ڈالی تھی۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کرپشن کرنے والے کے نزدیک کوئی انسانی رشتہ قابل قدر نہیں رہتا بلکہ اس کے نزدیک ہر چیز کا معیار صرف پیسہ قرار پاتا ہے چاہے وہ اسے تمام انسانی رشتوں کو پامال کرنے اور اخلاقی قدروں کی دھجیاں اڑانے کے بعد ہی کیوں نہ ملے وہ اس کیلئے بخوشی تیار ہوجاتا ہے۔ کرپشن کا خاتمہ اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہے۔ اگر یہ سب اتنا آسان ہوتا، تو بہت پہلے ہوچکا ہوتا۔بدعنوانیوں کی موجودہ دلدل سے نکلنے کے لئے اسلام جیسے مکمل اور فطری دین کی جامع اور حقیقی تعلیمات ہی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف سخت اور مربوط اقدامات اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی نیک نامی میں اضافہ ہو۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے حکومت اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ کیونکہ کرپشن ایک معاشرتی برائی ہے جس کا خاتمہ معاشرے کے ہر فرد کی کوششوں سے ہی ہو سکتا ہے انفرادی طور پر ہر کوئی کرپشن کے خلاف رویہ اپنائے اور یہ تہیہ کرے کہ وہ نہ تو بدعنوانی کے ذریعے اپنا کوئی کام نکالے گا اور نہ ہی خود بدعنوانی کرے گا تو اس کا نتیجہ لازمی طور پر یہی سامنے آئے گا کہ کرپشن میں کمی ہو گی اور معاشرے میں اس کے خلاف جذبات کو بیدار کر کے اس اہم مرحلے کو سرانجام دیا جاسکتا ہے۔