یہ کیسا مستقبل تھا۔۔؟

ایک حساس انسان ہونے کے ناطے میں تصور کر سکتی تھی کہ وہ دن اس شخص کیلئے کتنا پراُمید ہوگا جب اس نے یہ فیصلہ کیا ہوگا کہ میں نے اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ پاکستان چھوڑ کر ہمیشہ کیلئے کینیڈا چلے جانا ہے۔ ہوسکتا ہے اس کو کاروبار میں نقصان کا سامنا ہو یا وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہو جو روزگار کے لئے سالوں دھکے کھاتا رہتا ہے ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کسی طرح وہ خاندانی جھگڑوں سے تنگ آگیا ہو۔ لیکن اس بات کا قوی امکان ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے کمسن بیٹے اور بیٹی کا مستقبل سنوارنا چاہتا تھا وہ ایسی کوئی ناامیدی ا ور بے مرادی اپنے بچوں کو نہیں دینا چاہتا تھا جسکا وہ خود عرصے سے شکار تھا، یہ سارے میرے تصوراتی خدشات ہیں کیوں کہ عموماً اسی قسم کے لوگ امیگریشن لیتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح اپنے ملک کو چھوڑنا  چاہتے ہیں اور وہ بھی ان ہی قسم کے لوگوں کی طرح اپنے مستقبل کو بظاہر زیادہ تابناک بنانا چاہتا تھا۔ امیگریشن لینے کیلئے اس کو ہزاروں ڈالر اور کتنی ہی تگ ودو کرنا پڑی ہوگی۔ ہوسکتا ہے اس نے قرض لیا ہو یا پھر وہ آسودہ حال تھا۔ امیگریشن کے بے شمار مراحل سے تو وہ حقیقتاً گزرا ہوگا کیوں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ پھر کئی سال کے انتظار کے بعد وہ دن اس کی زندگی کا خوش کن دن ہوگا جب اس کو ڈاک سے ایک لفافہ ملا ہوگا کہ چلو تیار ہوجاؤ تمہارے خاندان کی امیگریشن قبول کرلی گئی ہے تم سب اک خاص مدت کے اندر تک کینیڈا آسکتے ہو۔ وہ دن اس کے لئے کیسا خوشی کا دن ہوگا اس نے اپنے بے شمار عزیز دوستوں کو ٹیلی فون کئے ہوں گے اور یہ خوشخبری سنائی ہوگی یقینا اس کے والدین نے اس کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلے جانے کا غم آنسوؤں کے راستے دل میں اُتارا ہوگا کیا انہوں نے اولاد کو اس لئے جوان کیاتھا کہ ان کے بوڑھے وجود کو یوں بے سہارا چھوڑ کر پردیس چلے جائیں اور پھر کبھی بھی شکل نہ دکھائیں۔ وہ خود بھی ان وقتی غموں سے کچھ پریشان ہوا ہوگا لیکن خوشیوں بھرے مستقبل کا خواب ہر قسم کے غم و الم سے بھاری ہوگیا ہوگا۔ شاید اس رات اس کی نیند خوشی کے مارے اس سے کوسوں دور ہوگئی ہوگی پھر اس نے اپنا بھرا پُرا گھر لپیٹنا شروع کیا ہوگا۔ خریداری کی ہوگی، سامان تیار کیا ہوگا۔ ٹکٹ خریدے ہوں گے کم از کم بھی اس کو چار لاکھ روپے ان ٹکٹوں کے دینا پڑے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے اس نے یہ سب بہ مشکل کیا ہو لیکن وہ مسرت سے اپنے پیاروں کے جلو میں ائیر پورٹ کینیڈا کیلئے رخصت ہوا ہوگا۔ کینیڈا ہی اب اس کا ملک تھا۔ اس نے بمشکل ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لیا ہوگا اورغم روزگار کی صعوبتوں سے گزرنے لگا ہوگا۔ اس کے بچے سکول جانے کے قابل ہوگئے ہوں گے وہ خوشیوں اور غموں کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اپنی نئی زندگی کو بنانے کیلئے مصروف ہوگیا ہوگا۔ ہاں پاکستان اپنے عزیز و اقارب سے اس کا ٹیلی فونک رابطہ رہتا ہوگا۔ ہوسکتا ہے وہ کبھی اپنی ماں کے آنسوؤں کے ساتھ اپنی کپکپاتی آواز بھی ملا دیتا ہو۔ وقت گزرتا رہا ہوگا۔ اک لمبا عرصہ۔ کئی سال، اس کا بیٹا اور بیٹی ہائی سکول پہنچ گئے ہوں گے۔ اس نے یقینا اپنے بچوں کواخلاق کی تعلیم بھی دلوانے کیلئے کوشش کی ہوگی لیکن وہ نہیں جانتا ہوگا کہ مغربی دنیا کی اس چکا چوند روشنی میں بڑے بڑے بت گر جاتے ہیں وہ تو اس کی معصوم بیٹی تھی۔ اسے کیا معلوم ہوگا کہ مغربی دنیا کے ہائی سکولوں میں آزادی کے کون کون سے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ جس بیٹی اور بیٹے کا وہ روشن اور تابناک مستقبل بنانے کیلئے بڑے چاؤ اور ارمان سے پاکستان سے یہاں لایا تھا وہ اب ان کی بات نہیں سنتے تھے۔ مغربی ممالک کے قانون کے مطابق ان پر کوئی جبر اور زبردستی نہیں کی جاسکتی تھی۔ وہ دنیا کے ترقی یافتہ اور آزاد ملک کے شہری تھے اور زندگیاں پوری طرح خود گزارنے کیلئے ہر طرح سے آزاد تھے۔ یہاں تعلیم کے آغاز سے اساتذہ بچوں کو سکھاتے ہیں کہ پولیس ان کی دوست ہے ان کے چھوٹے سے مسئلے کا حل بھی صرف پولیس کے پاس ہے۔ سیکنڈری لیول کی تعلیم میں اساتذہ کا پہلا سوال ہی یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے ساتھ والدین کا کیا رویہ ہے۔ اگر بچہ معمولی سا بھی عندیہ دے دے کہ ماں نے یا باپ نے اس کو مارا ہے تو یہ تشدد کے زمرے میں آتا ہے اور استاد کا فرض ہے کہ وہ سکول میں پولیس کو کال کریں اور مزید پوچھ گچھ کیلئے والدین کو حراست میں لے۔  ورنہ استاد کو پوچھ گچھ کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ اگرچہ اس شخص نے اپنی جوان15 سال کی بیٹی کو کئی بار ان مغربی طور طریقوں پر سرزنش کی ہوگی لیکن اسے ہر دفعہ اساتذہ یا ہوسکتا ہے پولیس کی طرف سے بھی وارننگ ملی ہوگی‘۔ وہ اس ملک میں باپ ہوتے ہوئے بھی اپنی اولاد کی بہتری کیلئے ایک تھپڑ بھی مارنے کا اہل نہیں تھا۔ اس کو یہاں اس ملک میں آتے ہوئے اور روزگار کے غم برداشت کرتے ہوئے سالہا سال بیت گئے ہوں گے۔ وہ کس منہ سے واپس پاکستان کا سوچ بھی سکتاہوگا اور یہ اتنا آسان بھی نہ تھا اور پھر اس نے وہ کام کرنے کا فیصلہ کرلیا ہوگا جس کے کرنے کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوسکتا تھا۔ اس نے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس کے ساتھ ہی عمر قید کی جیل‘سلاخوں کے اندر بند  اور پھر دل کا دورہ نہ پڑتا تو کیا ہوتا کینیڈین میڈیا ان خبروں کے حوالے سے تھرتھلی مچانے لگ گیا کہ قید کے کئی سال گزارنے کے بعد وہ بوڑھا جسم قید بامشقت کی سلاخیں توڑ کر آزاد ہوگیا تھا ایک اور گمنام خبر اس کی منتظر تھی۔ وہ جو امیگریشن ملنے کا سالوں انتظار کرتا رہا اور  اپنے دو کمسن بچوں کا مستقبل سنوارنے ایک ترقی یافتہ ملک کی آزاد سوسائٹی میں چل پڑا تھا۔ اس نے کب اور کہاں زندگی میں غلطی کی کہ جس کے نتیجے میں سارا خاندان تباہ و برباد ہوگیا تھا۔