18 اپنے ملک یا گھر سے دور رہنا کسی بھی شخص کے لئے آسان کام نہیں ہے کیونکہ جو سہولیات ہمیں اپنے ملک میں رہ کر میسر آتی ہیں وہ دیار غیر میں میسر نہیں آسکتیں۔ایسے لوگ جو بوجہ مجبوری یا بسلسلہ روزگار اپنا ملک چھوڑ کر کسی اور ملک میں جا بسے ہیں انہیں ہم تارکین وطن یا مہاجرین کہتے ہیں۔اقوام متحدہ نے 4دسمبر 2000ء میں مہاجرین کی بڑھتی تعداد کی پیش نظر ہر سال 18دسمبر کو بین الاقوامی مہاجرین کا دن منانے کا اعلان کیا،جس کے بعد سے پاکستان سمیت پوری دنیا میں بین الاقوامی مہاجرین کا عالمی دن 18دسمبر کو منایا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق دنیا میں 2کروڑ 10لاکھ پناہ گزینوں کا تعلق تین ممالک شام، افغانستان اور صومالیہ سے ہے۔افغان مہاجرین کی صورت میں دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین پاکستان میں آئے اور ان کی دو نسلیں اب تک یہاں جوان ہو چکی ہیں۔ خیال تو یہ تھا روس کی شکست کی بعد افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا۔لیکن یہاں متحارب گروپوں کی آپس کی خانہ جنگی میں افغان عوام اپنے ملک نہیں جا سکے اور ان کی بڑی تعدادایران میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی۔ایران نے پاکستان کے مقابلے میں افغان مہاجرین کو شہروں سے دور کیمپوں کی حد تک محدود رکھا‘پاکستان میں 40لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان کے بڑے شہروں میں آباد ہو گئے۔کرۂ ارض پر پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے انسا نی تاریخ میں پہلی مرتبہ مہاجرین کی ایک کثیر تعداد کو ایک طویل عرصہ تک اپنے دامن میں جگہ دی اپنی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے انہیں ایک عزیز مہمان کی طرح پروٹوکول دیا جنگ کیخونی پنجوں سے تحفظ کیلئے،بہترین پناہ گاہیں فراہم کیں تعلیم وصحت کی سہولتیں دیں اور ان کے ہر قسم کی ضروریات کی تکمیل کی پاسداری کی افغانستان پر روسی یلغار کے دوران اور بعداز جنگ سر زمین پاکستان اور بالخصوص صوبہ خیبرپختونخوا نے جس طرح افغان مہاجرین کی خدمت کی وہ ایک یکتاتاریخی مثال بن گئی ہے۔دنیا بھر میں سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے کا جو ریکارڈ پاکستان رکھتا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔اگرچہ ان مہاجرین کی وجہ سے قومی معیشت شدید دباؤ میں ہے لیکن پاکستان نے انہیں کبھی زبردستی افغانستان دھکیلنے کی کوشش نہیں کی۔ دنیا کاکوئی ملک بھی تارکین وطن،مہاجرین یا پناہ گزینوں کو اتنی سہولتیں نہیں دیتا،پاکستان نے مثالی کردار ادا کرتے ہوئے مہاجرین کو گلے سے لگایااور ان کو اپنے کاروبار، رہائش اور خوراک میں برابر کا حصہ دار بنایا۔پاکستان نے تقریباً پچاس سے ساٹھ لاکھ افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کر کے عالمی برادری میں نام تو کمایا تاہم عالمی برادری کی طرف سے اس کے بدلے میں جو تعاون ملنے چاہئے اس میں کمی محسوس کی جارہی ہے۔ بڑے مہاجرین کے ممالک میں اب سوڈان بھی شامل ہو گیا ہے۔جہاں سے اب تک 10لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کر چکے ہیں اقتدار کے لئے لڑی جانے والی خانہ جنگی کے سبب یوگنڈا،ایتھوپیا اوردوسرے افریقی ملک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔اقتدار کے لئے اس جنگ نے خانہ جنگی کی صورتحال اختیار کر لی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی جانب سے شائع کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ صرف گزشتہ سال کے دوران عالمی سطح پر10۔3ملین لوگ بے گھر ہوئے،جن میں سے34لاکھ انسانوں نے بین الاقوامی سرحدیں عبور کرکے دوسرے ممالک میں مہاجرت اختیار کی۔ان کی اعداد وشمار کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہر تین سیکنڈ بعد ایک انسان مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔اگردیکھاجائے تو دنیا بھر میں 6۔5کروڑ سے زائد انسان ہجرت پر مجبور ہیں۔آج دنیا میں ہر دوسرے تارک وطن کی عمر 18برس سے بھی کم ہے۔85فیصد سے زائد تارکین وطن یورپ سے باہر دیگر ممالک میں رہ رہے ہیں۔ہزارہا شامی،عراقی،افغان اور پاکستانی مہاجرین مختلف یورپی خطوں میں پیدل چلتے،سرحدی باڑیں پھلانگتے،کھلے آسمان تلے شب بسری کرتے نظر آتے ہیں۔دنیا کے مختلف ممالک میں تارکین وطن کے9سومہاجر کیمپ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ممالک میں جنگ،نسلی تعصبات،مذہبی کشیدگی،سیاسی تناؤ اور امتیازی سلوک کا شکار ہوئے اور نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔تارکین وطن اور آئی ڈی پیز کے لئے خوراک فراہمی کانظام نتائج سے پاک بنایا جائے۔مہاجرین کے کیمپوں میں صحت کی سہولتیں ناگزیر ہیں۔ماں اور بچے کی صحت،مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے لئے ویکسی نیشن کا معقول انتظام مسائل اور مشکلات برداشت کرنے کا ماحول پیدا کریگا۔ترک وطن ہجرت کے اسباب ختم کرنا ضروری ہے۔دنیا میں امن،تعلیم،معاشی حقوق کا تحفظ وقت کا اہم ترین ایجنڈا ہے۔انسانوں کے حقوق آزادی،انسانی حقوق، معاشی اور سماجی انصاف کی بنیادیں تسلیم کی جائیں۔تارکین وطن کی کفالت اور حالات کی بہتری پر اپنے وطن واپسی کا بہتر نظام بنایا جائے۔مجبوری کی حالت میں ترک وطن کرنے والوں کو کسی دوسرے اور تیسرے ملک میں آبادکاری کا نظام بنایا جائے۔اقوام متحدہ کے ادارے ہی اس حوالے سے کردار ادا کر سکتے ہیں۔اس کے ساتھ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی یہ ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ جن ممالک پر تارکین وطن کا بوجھ ہے اور جنہوں نے مہاجرین کو پناہ دی ہوئی ہے تو ان ممالک کے ساتھ خصوصی تعاون کیا جائے اور ان کے لئے ایک طرف اگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں میں سہولت کی فراہمی یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف ان کی معیشت پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کے لئے یہاں پر سرمایہ کاری کو بھی فروغ دینا چاہئے تاہم حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور پاکستان نے ایک طرف افغان مہاجرین کی صورت میں تاریخ کی ایک بڑی نقل مکانی کو برداشت کیا ہے تو دوسری طرف عالمی برادری نے اس موقع پر وہ مدد فراہم نہیں کی جس کی توقع کی جارہی تھی۔