حکومت کے انرجی بچت پروگرام کے تحت شادی ہال رات 10 اور مارکیٹیں رات 8 بجے بند، 20 فیصد سرکاری ملازمین کو گھر سے کام کرینگے اور ای بائیکس متعارف کرائی جائیں گی، وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کو مجوزہ توانائی بچت پلان پر بریفنگ دی گئی۔ وزیر اعظم نے ہدایت دی کہ خواجہ آصف تمام صوبوں کے وزرائے اعلی سے مجوزہ توانائی پلان پر مشاورت مکمل کریں۔ بعد ازاں پریس کانفرنس میں وزیر دفاع خواجہ آصف‘ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور مشیر برائے امور کشمیر، گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا کہ شادی ہالز رات 10 بجے، مارکیٹیں اور ریسٹورنٹس رات 8 بجے بند کئے جائیں گے۔ مگر ریسٹورنٹس کے لئے گنجائش ہے کہ شاید ان کو ایک گھنٹہ مزید بڑھایا جائے، 20فیصد سر کاری ملازمین گھر سے کام کریں گے، الیکٹرک بائیکس کی درآمد شروع ہو چکی ہے، گیس فراہم کرنے والی کمپنیاں گیزر کے لئے بچت کے آلات فراہم کریں گی، ایل ای ڈی بلب اورکم واٹ کے نئے پنکھوں کے استعمال اور دیگر اقدامات سے اربوں روپے کی بچت ہوگی، توانائی کی بچت کر کے معیشت کو اربوں کا فائدہ ہو گا‘ اس فیصلے سے 8سے 9 ہزار میگاواٹ بجلی کی بچت ہوگی‘ کیپسٹی پے منٹس کی مد میں 28ارب ماہانہ بچت ہوگی، آئندہ اس حوالے سے صوبوں سے مشاورت کی جائے گی جس کے بعد پالیسی پر عملدرآمد شروع ہوگا۔ ملک اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین توانائی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کا توانائی بچت پروگرام ایک مستحسن اقدام ہے، اس سلسلہ میں حکومت کی معاونت در اصل ملک کو بحران سے نکالنے میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ ملک کو در پیش سنگین معاشی صورتحال کے تناظر میں ہمیں اپنی عادتوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ نئے حکومتی احکامات پر تنقید کرنے والے تاجروں کا کہنا ہے کہ تجارتی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی بجائے بجلی کی پیداوار میں اضافے پر توجہ دینا زیادہ قابل فہم ہے۔ جبکہ حکومتی فیصلے کی حمایت کرنے والے تاجروں کا مؤقف ہے کہ عام آدمی نے اپنی ضرورت کی خریداری ہر حال میں کرنی ہے، اگر دکان رات کے بجائے دن کو کھلی ہو گی تو وہ دن کو مارکیٹ آئے گا۔ صبح کے وقت مارکیٹیں کھلنے سے پوری
دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ڈے لائٹ میں کاروبار کو ممکن بنایا جا سکے گا۔ امریکہ اور مغرب کے دیگر ممالک اگر ڈے لائٹ میں کاروبار کر کے ترقی کر سکتے ہیں تو یہ راستہ ہمارے لئے بھی بند نہیں ہے،۔ اسکے ساتھ ساتھ حکومت کو انرجی بحران کا حقیقی حل بھی تلاش کرنا چاہئے۔راقم روز اول سے توجہ دلا رہا ہے کہ مہنگی تھرمل بجلی کو خدا حافظ کہتے ہوئے،پانی، سورج کی روشنی اور ہوا سے سستی بجلی بنائی جائے، اور تمام دفاتر، گھروں اور ٹیوب ویلز کو واپڈا سے الگ کر کے سولر پرمنتقل کیا جائے تو نہ صرف بجلی سستی ملے گی،مہنگائی کم ہوگی بلکہ صنعتوں کو وافر اور سستی بجلی دستیاب ہو گی اور ملک کا تجارتی خسارہ بھی کم ہو گا۔ اسکے علاوہ
پرانے پنکھے 120 سے 130 واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں‘ نئے پنکھے تقریباً 40سے 60واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں‘ ان پنکھوں کے استعمال سے 15 ارب روپے کی بچت ہوگی، ایل ای ڈی بلبوں کے استعمال سے 23 ارب روپے کی بچت ہوگی‘ گھروں میں پنکھے اور ایئر کنڈیشن کے استعمال میں بچت سے 8 سے 9 ہزار میگا واٹ بجلی بچائی جا سکتی ہے۔ کپیسٹی پے منٹس کی مد میں 28 ارب بلین ماہانہ بچت ہوگی، گیس فراہم کرنے والی کمپنیاں گیز رکیلئے بچت کے آلات فراہم کریں گی‘ اس سے 92 ارب روپے سالانہ کی بچت ہو گی‘ متبادل سٹریٹ لائٹس جلانے سے چار ارب روپے کی بچت ہوگی۔ ہمیں اگر اپنے وسائل میں رہنا ہے تو اپنے ذرائع کے مطابق رہنا ہوگا۔ توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے بجلی کے کیس میں حکومتی فیصلوں میں اگر پن بجلی کی پیداوار بڑھانے پر توجہ دی جائے اور اس مقصد کے لئے آبی ذخائر تعمیر ہوں تو نہ صرف بجلی سستے داموں ملے گی بلکہ زراعت کے شعبے میں خود
کفالت کے ہدف کو حاصل کیا جا سکے گا، توانائی کے شعبے میں بحران کا خاتمہ بجلی چوری اور لائن لاسز کم کر کے بھی کسی حد تک ممکن ہے مدنظر رکھا جائے کہ نئے پنکھے ہوں یا لائٹس کی تبدیلی ان سے بچت ضرور ہوگی لیکن اس سے قبل ان کی خریداری اور تبدیلی کیلئے بھاری رقم کی ضرورت بھی پڑے گی، ضروری ہے کہ بجلی اور گیس کے شعبوں میں طلب کے مقابلے میں کم رسد پر قابو پانے کیلئے پیداوار میں اضافے کیساتھ بجلی اور گیس کا ضیاع روکا جائے، ضروری یہ بھی ہے کہ ترسیل کے نظام میں موجود خامیوں اور خرابیوں پر قابو پایا جائے،ناگزیر یہ بھی ہے کہ ان سروسز کے حصول میں صارفین کو در پیش مشکلات کے حل پر بھر پور توجہ مرکوز کی جائے یہ مسائل کنکشن کے حصول سے لیکر بلوں کی ادائیگی تک کے مراحل میں آتے ہیں ان ہی مسائل میں بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی سے جڑا اہم مسئلہ بلوں کے جمع کرانے کی تاریخیں ہیں جو ہر ماہ کے آخر میں آتی ہیں جبکہ تنخواہ دار طبقے کیلئے اس وقت یہ ادا ئیگی ممکن نہیں ہوتی اور تاخیر پر جرمانہ ادا کرنا مجبوری ہوتا ہے اس جرمانے سے بجلی گیس کی آمدن تو بڑھتی ہی ہے متوسط شہریوں کا بجٹ بری طرح متاثر ہوتا ہے کیا ہی بہتر ہو کہ توانائی کے شعبے میں اس نوعیت کے جملہ مسائل کے حل کیلئے اقدامات بھی یقینی بنائے جائیں۔ بدقسمتی سے ملک کو گزشتہ کئی عشروں سے توانائی کے بحران کا سامنا ہے اور یہ بحران وقت گزرنے کیساتھ بڑھتا ہی جارہا ہے، جس کی وجہ سے عوام کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا سامنا ہے جبکہ اس بحران کے باعث ہمارا صنعتی و تجارتی شعبہ بھی متاثر رہا ہے۔ کفایت شعاری پالیسی دینا ایک اچھی سوچ ہے تاہم اسکے ساتھ حکومت کو توانائی کی بچت کیساتھ توانائی کی پیداوار بڑھانے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ صنعت و تجارتی شعبہ کو اس کی ضرورت کے مطابق بجلی ملتی رہے تا کہ معاشی و اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ ملے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کی پیداوار بڑھانے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کیلئے بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دی جائے، جس سے ملک میں معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملے گا جبکہ بجلی کی پیداوار بڑھنے سے ہماری ضرورت بھی پوری ہو سکے گی علاوہ ازیں بیرونی سرمایہ کاری آنے سے یہاں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔