الینوائے: سائنس دانوں کے مطابق سمندر کی سطح پر موجود لامحدود مقدار میں آبی بخارات کی صورت میں موجود پینے کے قابل پانی کو حاصل کر کے دنیا میں سنگین ہوتے پانی کے مسائلے سے نمٹا جا سکتا ہے۔
امریکا کی یونیورسٹی آف الینوائے شیمپین کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ ایک ایسے انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو سمندر کی سطح پر آبی بخارات کو اکٹھا کرنے کے قابل ہو۔
یونیورسٹی میں قائم پرائیر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور سِول اینڈ انوائرنمنٹل انجینئرنگ کے پروفیسر پروین کمار کی رہنمائی میں کی جانے والی تحقیق میں دنیا بھر کے 14 ایسے مقامات کا جائزہ لیا گیا جنہیں پانی کی قلت کا سامنا تھا۔
اس جائزے کا مقصد ایسے فرضی ڈھانچے کی تعمیر کا تخمینہ لگایا جانا تھا جو سمندر کےاوپر سے بخارت جمع کر کے انہیں قابلِ نوش پانی میں ڈھالنے کے ساتھ موسمیاتی تغیر میں بھی کام جاری رکھ سکے۔
پروین کمار کے مطابق پانی کی قلت عالمی مسئلہ ہے اور امریکا بھی اس سے متاثر ہو رہا ہے، کولوراڈو دریا کے بیسِن میں کم ہوتی پانی کی سطح پورے مغربی امریکا کو متاثر کر رہی ہے۔ البتہ، اس علاقے جیسے سب ٹروپیکل علاقوں کے قریب میں موجود سمندروں سے کم بادل اور مناسب مقدار میں سورج کی روشنی ہونے کی وجہ سے مسلسل بخارات اٹھ رہے ہوتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ ماضی کی فالتو پانی کی ری سائکلنگ، مصنوعی بارش اور پانی سے نمک نکال کر قابلِ استعمال بنانے (ڈی سیلینیشن) کی تراکیب کے سبب بہت محدود نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ اگرچہ دنیا میں لگے کئی ڈی سیلینیش پلانٹس کو پائیداری کے مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ ان پلانٹس سے بننے والا نمکین اور بھاری دھاتوں سے بھرپور پانی کا فضلہ ہے۔
پرون کمار نے مزید کہا کہ بالآخر ہمیں ایسے طریقہ کار کی ضرورت ہوگی جو ہمارے لیے پانی کی فراہمی کو بڑھائے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ تجویز کردہ نیا طریقہ کار یہ مقصد بڑے پیمانے پر پورا کر سکتا ہے۔
سائنٹفیک رپورٹس میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں پروین کمار کے ساتھ گریجویٹ طالبہ عفیفہ رحمان اور ایٹماسفیئرک سائنسز کی پروفیسر فرانسینا ڈومِنگیز شامل تھیں۔