کینیڈا کے کئی شہر امیگرنٹس کی قومیت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ان ہی میں مسسی ساگا پاکستانیوں کی اکثریت کے ساتھ پہلے نمبرپر ہے‘ یہاں نہ صرف لاکھوں کی تعداد میں مسلمان آباد ہیں اور ان لاکھوں میں 80 فی صد پاکستان کے باشندے ہیں اور بڑی بڑی مساجد زیادہ تر یہیں پر ہیں‘کئی مشہور اسلامک سکول اور اسلامک سنٹر بھی اسی شہر میں قائم ہیں‘ مسسی ساگا کی لائبریز اس لئے بھی مشہور ہیں کہ ایک تو وہ خوبصورت کتابوں سے بھری ہوئی ہیں‘ وسیع و عریض ہیں ہر گلی محلے میں موجود ہیں اور ان میں اردو اور ہندی کتب کی تعداد زیادہ ہے‘ کورونا کے عرصے سے لے کر اب تک یہاں کی مشہور ترین سنٹرل لائبریری تزئین و آرائش کیلئے مکمل طور پر بند ہے اور نہ جانے کب کھلے گی کیونکہ اس لائبریری سے استفادہ کرنے اور اس میں بیٹھ کر پورا دن گزارنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور وہ شدت سے اس کے کھلنے کے منتظر ہیں جن میں ایک فرد میں بھی ہوں‘ یہاں نہ صرف آپ کتب بینی کا شوق پورا کرتے ہیں سینکڑوں کتب برائے فروخت ہوتی ہیں کتنی ہی خوب صورت کتابیں میں نے کئی بار یہاں سے خریدی ہیں‘ جب میں بیٹے کے ساتھ اس امید پر اس لائبریری پہنچی کہ اب یقینا یہ کھل گئی ہوگی تو وہ بند تھی موقع ایساتھا کہ میں واپس گھر نہیں جا سکتی تھی تو اسی شہر کی کسی اور لائبریری کو انٹرنیٹ پر تلاش کیاگیا‘ قریب ترین ہی ایک لائبریری مل گئی جس میں کچھ گھنٹے میں گزار سکتی تھی یہ اک ایسی لوکیشن تھی جہاں میں اپنے مشکل دنوں میں کئی بار بسوں میں بیٹھ کر آتی جاتی رہتی تھی‘اگرچہ لائبریری کے اندر کبھی بھی نہ آئی تھی‘ بیٹے نے مجھے اندر تک چھوڑا اور لائبریری کے شوق کو پورا کرنے کیلئے مجھے کئی گھنٹے تک بیٹھنے کیلئے موقع فراہم کیا‘ دیکھا تو یہاں بھی ایک مختصر ساریک برائے فروخت کتب کا موجود تھا بہرحال میں اپنے پسندیدہ سیکشن بائیو گرافی فکشن کی طرف چلی گئی‘بے شمار خوبصورت بائیوگرافیز سے الماریاں بھری پڑی تھیں‘ امریکہ کے صدور‘
کینیڈا کے بے شمار وزرائے اعظم کی زندگی کی کہانیاں کچھ میں نے پڑھ رکھی تھیں اور کچھ مجھے پسند نہ تھیں مجھے مڈل ایسٹ‘ افریقہ یورپ اور روس کے بادشاہوں کی بائیوگرافیز چاہئے تھیں‘ جو موجود نہ تھیں لیکن گاندھی جی کی بائیو گرافیز ہر جگہ موجود ہوتی ہیں ظاہر ہے اس کے لئے ہندوستان کے لوگ‘ ان کی ایمبیسز خاص طور پر اپنا کردار نبھاتی ہیں‘ میں نے کبھی بھی ان لائبریریوں میں قائداعظم محمد علی جناح‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ تحریک پاکستان کے عظیم لیڈرز کے بارے میں کوئی کتاب بھولے سے بھی نہیں دیکھی فاطمہ جناح کی خوبصورت کتاب ”مائی برادر“ بھی نہیں‘ اگر میرا یہ کالم کچھ مغربی ممالک کی لائبریریوں میں یہ خوبصورت کتابیں رکھوائیں‘بہرحال میں نے مارکوپولو کی زندگی پر لکھی ہوئی ایک کتاب اٹھائی ایک اور خوبصورت کتاب”منگول کوئینز“ کی زندگیوں کے بارے میں تھی منگول حکمرانوں کے ظلم و ستم کے بارے میں تو اتنا پڑھا ہے کہ حیرت ہوتی ہے لیکن منگول کوئینز نے کیا کارنامے انجام دیئے کتاب پڑھنے کے بعد یقینا آپ کے ساتھ ضرور شیئر کروں گی‘ حیرانگی نہیں ہوتی کہ اک چھوٹا ساریک اردو کتب سے بھرا ہوا تھا زیادہ تر لاہور کے مصنفین کے ناولز پڑے تھے‘ جو عموماً میرا شعبہ شوق نہیں ہے اشفاق احمد کے کچھ افسانوں کی کتابیں موجود تھیں‘ وصی شاہ کی ایک شاعری کی کتاب تھی‘ امجد اسلام امجد کی
مختلف ہم عصر مصنفین کے کام کے بارے میں ایک کتاب تھی میں نے ایک کتاب پسند کی جو انڈیا کے ایک مصنف نے لکھی تھی‘ اس کا نام تھا”اپنے اپنے طالبان“ نام ایسا تھا کہ مجھے صفحہ پلٹنے پر مجبور کر دیا اب ایشو کروا کے گھر لائی ہوں لیکن عنوان ایسا ہے کہ ہو سکتا ہے اخبار والے اعتراض کر دیں شاید پڑھنے والے سمجھتے ہونگے کہ ہم جو لکھتے ہیں من وعن چھپ جاتا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے‘ ایک ایک جملے کی ایسی ایڈیٹنگ کی جاتی ہے کہ بعض اوقات تو جھنجھلاہٹ بھی ہوتی ہے لیکن ایسا ہر ادارے کی پالیسی کے عین مطابق ہوتا ہے کتابوں کو ہاتھ میں پکڑنا‘ اس کے صفحے پلٹنے کا لطف اٹھانا‘ کتاب کو محسوس کرنا‘ یہ ایسی باتیں ہیں کہ یہ بات صرف کتاب سے محبت کرنے والا ہی سمجھ سکتا ہے میرا اس وقت ایسا ہی حال ہے تقریباً دس کے قریب کتابیں لے کر میں خوبصورت سی کرسی میز تک آگئی کوٹ اتارا‘ پرس اور اپنی چیزیں میز پر رکھیں‘ لائبریری میں بہت لوگ موجود تھے لیکن ایسی خاموشی تھی کہ لگتا تھا ہو کاعالم ہے‘کتنے ہی طلباء و طالبات اپنے نوٹس بنانے میں مصروف تھے‘ لائبریری کا سٹاف اپنی خاموش ٹرالیوں کے ساتھ کتابوں کو اٹھانے رکھنے اور ترتیب دینے میں مصروف تھا‘ کتابوں کے ریکس کا وسیع سلسلہ تنگ گلیوں کی صورت میں موجود ہے اور زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی کتاب دستیاب ہے‘ کئی لوگوں نے اپنا پانی‘ کچھ کھانے پینے کی چیزیں اپنے سامنے رکھی ہوئی تھیں لائبریری کا ایک سیکشن تقریباً 20/15 کمپیوٹرز پر مشتمل ہے‘ خوبصورت کرسیاں‘ مفت وائی فائی کی سہولت موجود ہے‘ اپنا ای میل چیک کرلیں‘ انٹرنیٹ پر ریسرچ کرلیں‘بک پڑھ لیں‘ نوٹس بنالیں‘ پرنٹ کرلیں اور میں اور میرا دل ودماغ ہے کہ پاکستان کی لائبریری سے موازنہ کرنے میں ہی لگا رہتا ہے‘کینیڈا میں لائبریری ہو اور بچوں کا سیکشن نہ ہو تو یہ ناممکن بات ہے‘اگلا کالم بچوں کے سیکشن سے ہی آغاز کروں گی تاکہ آپ کو مغربی اقوام کی کتابیں سے محبت کا احترام بتاسکوں۔