پاکستان میں قدرت نے فراوانی کے ساتھ وسائل فراہم کئے ہیں تاہم ان سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے جس کے لئے ٹیکنالوجی کی ترقی اور ٹھوس منصوبہ بندی شرط ہے۔یہاں پٹرول، گیس، سونا، چاندی، کوئلہ،ماربل، جپسم، نیلم، زمرد اور دیگر ہیرے جواہرات کی کانیں، کھیوڑہ میں دنیا کی نمک کی دوسری سب سے بڑی کان، کاشتکاری کے لئے دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام، پانچ دریااور ان پر بنائے گئے ڈیم، چار خوبصورت موسم بہار، خزاں، گرمی اور سردی،صحراؤں کی چمکتی ریت میں شیشے کے ذخائر، برف سے ڈھکے پہاڑوں کے لامتناہی سلسلے، پھل فروٹ کی اعلیٰ اقسام، گندم، چاول، گنا، کپاس کے علاوہ بے شمار اجناس۔ غرض یہ کہ ارض پاک میں قدرت کی ایسی کون سی دولت ہے جو کہ یہاں موجود نہیں؟ کافی عرصہ بعد ایک بار پھر ریکوڈک کا منصوبہ توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ ریکوڈک بلوچستان میں ضلع چاغی میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ جو بلوچستان کے شمال مغرب میں ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہاں کی آبادی بہت کم ہے اور لوگ دور دور آباد ہیں۔ جیولوجیکل سروے آف پاکستان نے 1978ء میں انکشاف کیا ہے کہ اس علاقے میں سونے اور تابنے کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ سونے کے ذخائر دنیا میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ جن کی مقدار ایک اندازے کے مطابق 41.5 ملین اونس ہے۔ بلوچی زبان میں ریکوڈک ریت کے ٹیلے کو کہا جاتا ہے۔ 1993ء میں ایک آسٹریلین کمپنی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت نے ایک ایگریمنٹ پر دستخط کئے تھے۔ جس کے مطابق آسٹریلین کمپنی 75 فیصد اور بلوچستان کی حکومت 25 فیصد کی حصہ دار ہو گی۔ 2006ء میں آسٹریلیا کی ہی ایک دوسری کمپنی نے بلوچستان حکومت سے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے مطابق ٹی سی سی نے BHP سے ریکوڈک کے کان کنی کے تمام اختیارات خود حاصل کر لئے۔ اس کے فوراً بعد
بلوچستان ہائی کورٹ میں 1993ء میں ہونے والے ایگریمنٹ کو چیلنج کردیا گیا۔ اس دوران بہت ساری مشکلات آئیں ا ور ریکوڈیک سے فائدہ اٹھانے اور یہاں سے کمرشل بنیادوں پر سونے کی کان کنی کے آغاز میں رکاوٹیں موجود رہیں۔ نومبر 2020ء سے مارچ 2022ء تک حکومت پاکستان نے مختلف فورم پر بڑی شدومد سے اپنا کیس لڑا جس کے نتیجہ میں مارچ 2022ء میں حکومت پاکستان کینیڈا کی کمپنی سے عدالت سے باہر ایک معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئی جس کے مطابق ICSIDکی طرف سے ہر جانے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا اور یہ طے پایا کہ ریکوڈک منصوبہ پر کمپنی دس ارب ڈالر خرچ کرے گی جس کے نتیجہ میں آٹھ ہزار افراد کو روز گارمہیا ہوگا۔ چنانچہ بہت ہی مشکلات کے بعد حکومت پاکستان مسئلوں سے بھر پور اس منصوبہ پر بغیر کوئی ہرجانہ دئیے نیا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے جبکہ تھر کول کے حوالے سے سائنس دانوں نے پہلے بھی کئی مرتبہ کہا تھا کہ تھر میں کوئلے کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں اور تھر کے کوئلے سے نہایت سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن کبھی بھی کسی نے اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی اور تیل سے مہنگی بجلی پیدا کرکے عوام پر بھی بوجھ ڈالا جا رہا ہے اب جبکہ تھر میں کوئلے کے بہت وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو موثرطور پر کام میں لانے کی منصوبہ بندی کی جائے، کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں اور اگر حکومت کے پاس پیسے یا وسائل کی کمی ہے تو بیرونی سرمایہ کاروں کی مدد سے یہ منصوبہ شروع کیا جا سکتا ہے جبکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بھی اس منصوبے کو شروع کیا جا سکتا ہے۔علاوہ ازیں پن بجلی کے چھوٹے بڑے منصوبے بھی شروع کرکے توانائی کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔اس کے علاوہ سورج اور ہوا سے بھی بجلی پیدا کرنے پر توجہ دی جائے تاکہ اخراجات بھی کم ہوں اور ضرورت کے مطابق بجلی بھی پیدا کی جاسکے۔ دنیا بھر میں توانائی کے نئے ذرائع بروئے کار لائے جا رہے ہیں جن میں ہوا اور سورج کی توانائی قابل ذکر ہیں۔ اب ہمیں بھی اس سلسلے میں ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔