ہنستے کھکھلاتے بچے اور لائبریریاں 

کینیڈا کی لائبریریوں میں بچوں اور ان کی دلچسپیوں سے محبت واضح طور پر نظر آتی ہے۔ ویسے تو مغربی ممالک میں نوجوانوں اور بچوں کو لے کر ایسی پالیسیاں بنا دی گئی ہیں کہ ان لوگوں کے لئے اپنی آنے والی نسلیں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ترقی پذیر ممالک کے بچے  ان سہولیات کا تصور بھی نہیں کر سکتے جو ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کوحاصل ہیں۔ ویسٹرن ممالک کی لائبریریاں اور سکول خوبصورت لہلہاتے باغوں کے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتے ہیں‘ گو کہ کینیڈا کو امیگریشن کے نام پر کروڑوں لوگوں کی صورت میں آبادیاں بڑھانے کے واضح نقصانات دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ابھی تک عمارت خوبصورت ہے کھوکھلی  نہیں ہوئی‘ میں مسی ساسگا کی اس چھوٹی سی لائبریری میں بچوں کا خوبصورت ترین سیکشن دیکھ کر حیران نہیں ہوں‘ رنگین کتابیں اپنی بھری ہوئی شیلفوں میں گویا ہنستی مسکراتی اپنے ہونے کا یقین دلا رہی ہیں۔ بچے اپنے اپنے ماں باپ کے ساتھ بہترین میز کرسیوں پر بیٹھے اپنی پسند کی کتابوں کو ہاتھوں میں پکڑ کر کتاب کے پیار اور احترام کو محسوس کر رہے ہیں اور یہی وہ احترام او پیار ہے جو ان کے دلوں میں عمر کے آخری حصے تک قائم دائم رہے گا‘ ان لائبریریوں میں کوئی بھی بچوں کے علاقے‘ زبان، غریبی امیری کے بارے میں اندازے نہیں لگاتا بس اہم ترین مرکز بچے کی ذات ہوتی ہے‘ ایک لمحے کیلئے ہم اپنے ملک کو ذہن میں لائیں اور سوچیں کہ کیا کوئی ایسی پبلک لائبریری یہاں موجود ہے جس کا مرکز نگاہ ایک بچہ ہو، وہ نئی اور خوبصورت رنگین کتب کو ہاتھ لگانے اور پڑھنے کا حق رکھتا ہو، شاید آپ بہت نگاہیں دوڑائیں آپ کو ایسا کسی شہر میں بھی نظر نہیں آئیگا۔یہ ممالک ترقی یافتہ ملک ایسے ہی نہیں بن گئے، فرض شناسی ایک ایسی خوبی ہے جو یہاں کے ہر انسان میں اوپر سے نیچے تک موجود ہے‘ وہ خوبیاں جو  ترقی پذیر ممالک رات دن تلاش کریں تو ان کو خال خال نظر آئیں‘ اگرچہ میں بچوں کے پورشن میں گئی نہیں لیکن ہنستے مسکراتے بچے کمپیوٹر پر اپنی پسندیدہ گیمز مجھے شیشوں کے پار کھیلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔جاذب نظر پھولوں والا قالین اسی لئے بچایا ہوا ہے کہ کبھی وہ زمین پر بیٹھ جاتے ہیں کتابیں گراتے ہیں اٹھاتے ہیں‘ اور بے شک وہ کوئی کتاب میز یا قالین پر ہی گرا کر چلے جائیں یہاں بہت سے ایسے ورکرز موجود ہیں جو ان کو دوبارہ حروف تہجی کی ترتیب سے شیلفوں میں رکھ دینگے‘ ماں باپ اپنے بچوں کو کتابوں کے ریکس میں رکھنے کی پوری تربیت دے رہے ہیں۔ یہاں میں نے ایک بے حد بزرگ خاتون دیکھی‘ دکھنے میں ہندوستانی خاتون لگ رہی ہے میں نے بات کرنے میں پہل نہیں کی لیکن وہ خود میرے قریب آئی اور اردو ہندی ملی جلی زبان میں بتایا کہ وہ مشرقی افریقہ سے تعلق رکھتی ہے‘ اتنی نفیس اُردو بولتے دیکھ کر مجھے وہ بہت اچھی لگی‘ کتابوں سے بھری ہوئی ٹرالی کو دوبارہ شیلف میں رکھنے کیلئے جارہی تھی۔افریقہ میں بہت سے ہندوستان کے لوگ آباد ہیں‘ کہنے لگی میں گزشتہ بائیس سال سے اسی لائبریری میں کام کر رہی ہوں‘ اور اب میں صرف چند گھنٹے کام کرتی ہوں‘ ظاہر ہے اب اسکی بزرگی اسکو فل ٹائم کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہوگی‘ اسی نے مجھے اُردو اور ہندیکتب کے سیکشن دکھائے‘ اس نے اپنا روایتی لباس‘ چوڑیاں‘ مہندی‘ انگوٹھیاں  سب پہنی ہوئی تھیں‘ کینیڈا میں لباس کو لے کر کوئی پابندی نہیں ہے۔ آپ اپنی کام کی جگہ پر اپنی پسند کا لباس پہن سکتے ہیں لیکن سردی کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ہر انسان گرم پینٹ جیکٹ اور انگلش لباس پہننے پر مجبور ہو جاتا ہے اس لئے ہمارے لباس خصوصاً خواتین کے لباس سردیوں کے منفی درجوں کیلئے ناکافی ہوتے ہیں۔ افریقہ کی ہندوستانی خاتون سے بات کرکے اور اس عمر تک اسکی محنت کرنے کے جذبے  کو دیکھ کر نیاحوصلہ ملا‘ لائبریری کی سخت کرسیوں پر بیٹھے بیٹے تھک چکی ہوں اور میرا کھانے پینے کا ناکافی سامان بھی ختم ہو  چکا ہے میں نے تو خود ہی بیٹے کو کہا تھا کہ لائبریری رات9بجے بند ہوگی تو وہ کبھی بھی مجھے لینے آسکتا ہے لیکن میرے لئے اب مزید یہاں بیٹھنا ناممکن سا ہی رہا ہے میں اس ریک کی طرف آگئی جہاں کتابیں فروخت کا سائن لگا ہوا ہے۔ بچوں کی ڈھیروں کتابیں برائے فروخت ہیں۔ میں نے ان میں کچھ اچھی کتابیں اپنے پوتے پوتیوں کیلئے تلاش شروع کر دی، جب سے میں یہاں آئی ہوں میرا دل چاہتا ہے کہ کم از کم ان سب میں کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے کی عادت  ہی ڈال دوں کسی حد تک تو میں کامیاب بھی ہوں کیونکہ سکول میں بھی ان کو لائبریری میں بھیجا جاتا ہے کتاب ایشو کروائی جاتی ہے اور گھر لے کر جاکر پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔کتاب پڑھنا ایسی عادت ہے کہ اگر بچوں کو آغاز سے تربیت دیں تو اندر جانے لگتی ہے۔ سو میں نے چند کتب پسند کیں مختلف عمروں کے بچوں کی پسند کے مطابق اور ان کی قیمت صرف10 سینٹ‘20سینٹ اور50سینٹ میں‘ یعنی10 پیسے‘ 20پیسے اور50پیسے‘4ڈالر کی میں نے18 کے قریب کتب خریدیں۔ مجھے علم ہے کہ یہ کتابیں دیکھ کر میرے بچے کتنا زیادہ خوش ہونگے اس میں ایک کتاب ایسی بھی تھی جو کلاس میں بہترین گریڈ حاصل کرنے کے طریقوں پر مشتمل تھی۔ میں نے لائبریری کے کاؤنٹرپر ان کتب کو رکھوا دیا ابھی تو میرے گھر جانے میں بہت وقت ہے اور سوچا کیوں نہ قریبی ہال کا ایک چکر ہی لگا آؤں اگرچہ مجھے میرا بیٹا سختی سے منع کر گیا تھا کہ میں نے لائبریری سے باہر نہیں جانا‘ ایک وجہ منفی سردی ہے اور دوسری وجہ کہ کہیں میں راستہ نہ بھول جاؤں اورمیرے پاس فون موجود نہیں ہے۔