گزشتہ روزپاکستان افغانستان اور ازبکستان کے درمیان سہ ملکی ریلوے ٹریک منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ پاکستان کے حوالے کر دی گئی ہے جبکہ افغان طالبان نے بھی منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ منصوبے میں مزار شریف سے طور خم تک 783کلومیٹر ریلوے الیکٹرک ٹریک بچھایا جائے گا جس پر 8ارب ڈالر سے زائد لاگت آئے گی،ٹریک پر 148کلومیٹر کی 80ٹنل بنائی جائیں گی،ٹنل پر مشتمل ٹریک پر 40لاکھ ڈالر فی کلو میٹر اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ منصوبہ مکمل ہونے سے پاکستان وسطی ایشیاء سے منسلک ہو جائے گا اور گوادر کے راستے وسط ایشاء کو گرم پانیوں تک رسائی کا دہائیوں پر انا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن ہو جائے گا۔ ٹرانس افغانستان ریلوے کا یہ منصوبہ صرف پاکستان نہیں خطے کا سب سے بڑا اقتصادی منصوبہ ہے۔ تکنیکی معاملات کا جائزہ لینے کی خاطر ضروری تیاریاں کر لی گئی ہیں۔ اس سے افغانستان کو بھی بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ٹرانس افغان منصوبہ سی پیک کی طرح ہی اہمیت کا حامل ہے، بلکہ اس کی وجہ سے سی پیک کے فوائد میں بھی اضافہ ہوگا۔ وسط ایشیا ء سے گوادر اور دوسری جانب چین تک مختصر زمینی راستہ پورے خطے کی ترقی استحکام اور قیام امن کے سلسلہ میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ لازم ہے کہ پاکستان افغانستان اور ازبکستان کی حکومتیں اس منصوبے کو طے شدہ پانچ سالہ مدت میں مکمل کریں، تا کہ اس کے فوائد سے مستفید ہوا جا سکے۔ ٹریک کا سارا کام افغانستان میں ہوناہے، کیونکہ از بکستان سے مزار شریف تک اور پاکستان میں طورخم تک ریلوے ٹریک پہلے ہی موجود ہے۔ افغان طالبان جس طرح اپنے ملک میں ترقیاتی کام کرر ہے ہیں اسے دیکھ کر توقع کی جاتی ہے کہ یہ منصوبہ بھی اپنے وقت سے پہلے مکمل ہوگا۔قدرتی طور پر پاکستان اور افغانستان ایک ایسے خطے میں واقع ہیں جس کے ارد گرد کئی وسطی ایشیائی ممالک ازبکستان، تاجکستان آذربائیجان و دیگر وسطی ایشیائی جمہوریتیں واقع ہیں جبکہ یہ ایک ایسی شاہراہ پر واقع ہے جہاں زمانہ قدیم سے شاہراہ ریشم کے نام سے تاریخی اور تجارتی اہمیت کی حامل شاہراہ گزری ہوئی ہے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں قافلوں اور سمندری وفضائی راستوں کے ذریعے تجارت و سیاحت نسبتاً زیادہ اخراجات کی حامل ہوتی ہے اس لئے اب ان ممالک کی حکومتوں نے اس شاہراہ ریشم کی جگہ ریلوے لائن بچھا کر سیاحت و تجارت کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں گذشتہ روز پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے اعلی حکام نے اسلام آباد میں ایک سہ ملکی کانفرنس منعقد کی جس میں ”ٹرانس افغان ریلوے پرا جیکٹ“کے نام سے مجوزہ منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔ تینوں ممالک کے حکام نے آپس میں ماہرین کی موجودگی میں سنٹرل ایشین ریجنل اکنامک کو آپریشن کی وزارتی کا نفرنس منعقدہ 2016ء پر عملدرآمد کا جائزہ لیا اور سی اے آرسی کے تحت تقریباً 25 ہزار کلومیٹر مین ریلوے لائن کوریڈور بچھانے اور اس کے ارد گرد دیگر ممالک تک اسے پھیلانے پر بھی غور و خوض کیا گیا۔ مجوزہ منصوبے کا مقصد وسطی ایشیائی ممالک کو مزار شریف کے راستے پاکستان ریلوے نیٹ ورک کے ساتھ ریل کے ذریعے منسلک کرنا ہے۔ ریلوے حکام کے مطابق سہ فریقی ملاقات کے دوران ابتدائی تکنیکی اندازوں اور اس کی تکمیل کے لئے ممکنہ اقدامات پر غور و خوض کیا گیا۔ اجلاس کی صدارت پاکستان کے مرکزی سیکرٹری وزارت ریلوے امور سید مظہر علی شاہ نے کی جبکہ افغانستان کے نمائندے الحاج ملا بخت الرحمن شرافت اور ازبکستان کے نمائندے عزت مآب کمالوف اکمل سید اکبر وچ نے بذریعہ وڈیو لنک اجلاس میں شرکت کی۔اس منصوبے کی تکمیل سے علاقائی اور باہمی تجارت کو فروغ ملے گا جبکہ یہ تینوں ممالک پہلے ہی 573 کلو میٹر نئے ٹرانس افغان ریلوے لائن کی تعمیر کے بارے میں ایک روڈ میپ منصوبے پر دستخط کر چکے ہیں جو وسطی ایشیائی ممالک کی بندرگاہوں کو بحریہ عرب کے ساتھ ساتھ ریلوے پٹڑی منسلک کرے گا۔ مجوزہ پٹڑی شمالی افغانستان کے تاریخی شہر مزار شریف کے راستے کابل تا پشاور اور ازبکستان کی سرحد ترمذ تک پھیلائی جائے گی جس کا 2012 ء میں پہلے ہی افتتاح ہو چکا تھا۔ اس طرح براہ راست پاکستان اور ازبکستان کی دار الحکومت تاشقند آپس میں جڑ جائیں گے۔ ریلوے ٹریک کے ذریعے مسافر اور سامان کی ترسیل بھی ممکن ہو جائے گی جس سے ان ممالک کی معاشی ترقی میں کافی پیشرفت ہوگی اور”لینڈ لاک“(سمندر تک رسائی نہ رکھنے والا ملک)افغانستان و ازبکستان آپس میں براہ راست مربوط ہو جائیں گے۔ ریلوے حکام کے منصوبے کے مطابق وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان علاقائی تعاون کا پہلی بار منصوبہ 2016ء میں اسلام آباد میں دستخط ہو گیا تھا جبکہ حالیہ 25ہزار کلومیٹر اہم ریلوے ٹریک منصوبے کے باعث سی اے آرای سی سے باہر کے علاقائی ممالک بھی منسلک ہو جائیں گے۔ سی اے آر ای سی ممالک کو اپنی ایکسپورٹ اور امپورٹ ضروریات کو پوری کرنے کی راہ میں کئی چیلنج در پیش ہیں خاص طور پر انٹر موڈل روابط کی راہ میں اسی پیمانے پر مشکلات درپیش ہیں جن میں معاشی ترقی، تجارتی طور طریقوں اور مقامی ٹرانسپورٹ کے انفراسٹرکچر کو تبدیل کر کے ریلوے ٹرانسپورٹ میں تبدیل کرنا شامل ہے۔ موجودہ عالمی اقتصادی ماحول میں سی اے آر ای سی ممالک کو علاقائی تعاون کے لئے مربوط با ہمی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ریلوے اثاثوں میں سرمایہ کاری، سامان لے جانے والی کو چز اور لوکوموٹیو سمیت ان سے منسلک دوسری سہولیات اور اقدامات کو بہتر بنا کر تجارت کو فروغ دینا شامل ہے۔ جس سے ریلوے ٹرانسپورٹ بحری ٹرانسپورٹ کا کام کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ دلکش اور منافع بخش بنایا جا سکے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ریل رابطے سے دونوں ممالک کی معیشتوں پر بہت مثبت اثرات مرتب ہونگے اور دونوں طرف ترقی کا سفر تیز ہوگا کیونکہ سی پیک منصوبہ اسی ریلوے لائن کے ذریعے زیادہ آسانی کے ساتھ وسطی ایشیا تک پہنچ کر پورے خطے کی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بن سکے گا۔