ترکیہ اور شام میں زلزلے سے اموات کی تعداد 11ہزار سے تجاوز کرگئی

ترکیہ اور شام میں تیسرے وز بھی زلزلے سے تباہ عمارتوں کے ملبے سے لاشیں نکالنے کا کام جاری ہے۔

6 فروری کی علی الصبح آنے والے زلزلے نے ترکیہ اور شام میں قیامت خیز تباہی مچائی ہے۔ ناصرف مقامی ادارے بلکہ پاکستان سمیت کئی ممالک کے رضاکار ریسکیو کاموں میں مصروف ہیں۔

دوسری جانب زلزلے کے بعد سے اب تک درجنوں آفٹر شاکس ریکارڈ کیے گئے، جس میں سے چند کی شدت تو ریکٹر اسکیل پر 7.6 تک ریکارڈ کی گئی ہے۔

ترک حکام کا کہنا ہے کہ ایک کروڑ 35 لاکھ سے زائد افراد اس تباہ کن زلزلے سے متاثر ہوئے۔ سب سے زیادہ متاثر علاقے کہرامانمارس، غازیانتپ، سنلیورفا، دیار بکر، ادانا، ادیامن، مالاتیا، عثمانیہ، ہاتائے اور کیلیس ہیں، جب کہ شام میں الیپو ، ادلب ن حماء اور لطاقیہ صوبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

ترکی میں سرکاری سطح پر اب تک 8574 جب کہ شام میں 2530 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں ، جب کہ ہزاروں افراد زخمی ہیں، ملبے میں اب بھی سیکڑوں افراد دبے ہوئے ہیں، جن کی زندگی کی امید کی آس میں ریسکیو کا کام جاری ہے۔

ترکیہ کے حکام کے مطابق اب تک ملبے سے 8,000 سے زائد افراد کو نکالا جا چکا ہے، جب کہ 380,000 افراد نے سرکاری پناہ گاہوں یا ہوٹلوں میں عارضی رہائش اختیار کرلی ہے۔

زلزلہ زدہ علاقوں میں ناصرف ترکیہ اور شام بلکہ پاکستان اور آذربائیجان سمیت کئی ممالک کی ٹیمیں موجودہ ہیں، جو مقامی افراد کے شانہ بشانہ متاثرین کی مدد کررہی ہیں۔

ترک وزیر صحت فرحتین کوکا نے کہا ہے کہ سب سے زیادہ ہلاکتیں صرف ہاتائے میں ہوئی ہیں جہاں منگل کی شام تک 1647 افراد کی لاشیں نکالی گئیں اور 1846 کو ملبےسے نکالا گیا۔

این ڈی ایم اے کی ایما پر پی آئی اے کے دو طیارے امدادی سامان لر کر ترکی اور شام روانہ ہوگئے ہیں۔

ترجمان پی آئی اے کے مطابق 7.4 ٹن کارگو لے کر پی آئی اے کی پرواز پی کے 705 بدھ کی صبح استنبول جب کہ 14 ٹن امدادی سامان بشمول سردیوں کے خیمے اور کمبل لے کر پی آئی ای کی خصوصی پرواز پی کے 9135 اسلام آباد سے دمشق روانہ ہوئی۔

امدادی کارکنان زلزلے سے منہدم ہونے والی عمارتوں کے ملبے میں دبی لاشوں اور زخمیوں کو نکالنے میں مصروف ہیں لیکن خون جمادینے والی سردی اس ریسکیو آپریشن میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔

مقامی محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ علاقے میں آئندہ چند روز میں برفباری کا امکان ہے جس سے امدادی کارروائیاں مزید مشکل ہوسکتی ہیں۔

زلزلے سے کئی ہوائی اڈوں میں فضائی آپریشن بند کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کی ترسیل بھی دشوار ہوگئی ہے۔