بہت سے ممالک کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ توانائی کے پائیدار ذرائع آج کی دنیا میں بہت اہم ہیں، اور ان تک رسائی ہر ایک کی زندگی کے امکانات کو بہتر بنا سکتی ہے۔ کسی قوم کی ترقی کا ایک اہم جز و توانائی کا ایک قابل اعتماد ذریعہ ہے۔ متعدد اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اگر توانائی تک سستی رسائی کو آسان بنایا جائے تو انسانی ترقی اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ دنیا کے توانائی کے وسائل کے سنگم پر واقع پاکستان کو سٹریٹجک فائدہ حاصل ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان کی توانائی کی صورتحال مثالی نہیں ہے کیونکہ ریاست درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور اس کے پاس توانائی کے اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ خود کو برقرار رکھ سکے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب اور توانائی کے اخراجات میں تبدیلی کے نتیجے میں درآمدی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان گزشتہ چند دہائیوں سے توانائی کے سنگین مسئلے کا سامنا کر رہا ہے، جیسا کہ بجلی کی مسلسل بندش، گیس کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ، بڑھتی ہوئی قیمتیں، اور ایندھن کی خراب سپلائی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان اپنی توانائی کی استعداد پر قابو پانے کے لیے علاقائی رابطوں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان اور روس کے درمیان تیل و گیس معاہدوں پر اتفاق ہو گیا ہے۔ روس کے وزیر توانائی نکولے شو یکنوف کی قیادت میں آنے والے وفد نے وزرا کی سطح کے مذاکرات کو اطمینان بخش قرار دیا۔ معاہدوں کے بعد توانائی تیل اور گیس کی فراہمی کے لئے دونوں ملک ورکنگ گروپ بنا رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس بنیادی کام کے بعد دو طرفہ تجارت و تعاون کے امکانات پہلے سے روشن نظر آنے لگے ہیں۔ پاکستان نے روسی وفد کو تیل و گیس کی رسد و طلب کا ڈیٹا فراہم کیا ہے۔ صدر پوٹن نے اس موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا اور عالم اسلام میں روس کا اہم شراکت دار ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو مزید مستحکم بنایا جائے گا۔ گزشتہ برس دسمبر میں وزیرمملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے روس کا دورہ کیا تھا۔ روسی وفد کا حالیہ دورہ ڈاکٹر مصدق کے دورے کا تسلسل ہے۔ روسی وفد کی آمد سے کم از کم وہ ابہام ختم ہوا کہ روس کے ساتھ تیل و گیس کی خریداری کے معاملات میں حکومت سنجیدہ کوششیں نہیں کر رہی۔ روسی وفد نے پاکستانی حکام کے ساتھ 11سو کلومیٹر طویل پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن پروجیکٹ کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ گیس پائپ لائن کراچی سے لاہور تک بچھائی جائے گی۔ پاکستان اور روس نے دو معاہدوں پر دستخط 2015اور 2021سے کر رکھے ہیں۔ ان معاہدوں کے مطابق سٹریم گیس پائپ لائن 2.5ارب ڈالر سے 2022 میں بچھانے کا کام شروع ہونا تھا لیکن یوکرین کے ساتھ جنگ کے باعث روس پر لگائی گئی پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ بروقت شروع نہ ہو سکا۔ پاکستان 2004سے بدترین انرجی بحران کا شکار چلا آ رہا ہے۔قو میں بحران کا سامنا کرتی ہیں اور پھر اس سے نمٹ کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔ وطن عزیز میں متبادل توانائی کے وسائل اس درجہ وافر ہیں کہ پاکستان درآمدی توانائی پر انحصار 80 فیصد کم کر سکتا ہے‘عہد حاضر میں کون نہیں جانتا کہ قوموں کو ترقی کے لئے توانائی کے ذخائر تک کم خرچ رسائی درکار ہے۔ توانائی کی قیمت کم رہے تو اشیاء کی پیداواری لاگت بھی کم رہتی ہے۔ کم لاگت سے تیار مصنوعات عالمی منڈی میں اپنے لئے گنجائش بنا لیتی ہیں۔ چین سمیت بہت سے ممالک برآمدی منڈیوں میں اس وجہ سے کامیاب ہیں کہ ان کا مال گاہک کی قوت خرید کے مطابق قیمت رکھتا ہے۔ پاکستان کے معاشی عدم استحکام میں توانائی کی قیمتوں میں غیر یقینی پن اور تیز رفتار اضافہ ہے۔ اس وقت حکومت پاکستان وسطی ایشیائی جمہوریہ اور روس کو توانائی کے سودوں میں شامل کرنے کے لئے سر گرم ہے۔ ترکمانستان، افغانستان،پاکستان،بھارت قدرتی گیس پائپ لائن منصوبہ ایک ایسا منصوبہ ہے جسے پاکستان ابھی شروع کرنے کیلئے تیار ہے۔ دنیا میں گیس کے چوتھے بڑے ذخائر ترکمانستان میں پائے جاتے ہیں۔مذکورہ گیس منصوبے کیلئے پائپ لائن ترکمانستان سے چمن اور پھر ملتان تک جائیگی، جہاں اسے پاکستان میں سوئی کمپنیوں کے نیٹ ورک میں ضم کر دیا جائے گا۔